مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیرخارجہ حسین امیر عبداللہیان نے پیر کو جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ دنیا شرمناک ترین اخلاقی اور انسانی بحران کا شکار ہوچکی ہے جو گزشتہ 80 سالوں سے جاری فلسطینی عوام کے حقوق کی خلاف ورزی پر بے شرمانہ خاموشی کا نتیجہ ہے۔
مکمل متن درجہ ذیل ہے؛
بسم الله الرحمن الرحیم
جناب صدر و معزز شرکاء
میرے لئے خوشی کا مقام ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے انسانی حقوق کونسل کے اس اعلیٰ سطحی اجلاس میں انسانی حقوق پر حقیقی توجہ دینے کی ضرورت کے بارے کچھ نکات بیان بیان کرنے کا موقع ملا۔
محترم خواتین و حضرات
اسلامی جمہوریہ ایران اپنے قومی اور اسلامی عقائد و اقدار کی بنیاد پر انسانی حقوق اور وقار کی پاسداری اور احترام میں سختی سے کاربند اور ثابت قدم ہے۔
بدقسمتی سے بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کے بلند اہداف کے حصول کو کئی اہم چیلنجوں کا سامنا ہے، جن میں سے سب سے اہم چیلنج دنیا کی واحد نسل پرست، قابض اور جارحیت پسند رجیم کی طرف سے منظم اور وسیع پیمانے پر "انسانی قتل عام ہے۔
درحقیقت ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ دنیا کو ایک انتہائی شرمناک اخلاقی اور انسانی بحران کا سامنا ہے، جو فلسطینیوں پر پچھلے اسی سالوں سے جاری استعماری قبضے اور فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت کی مسلسل خلاف ورزی کا نتیجہ ہے۔
قابل توجہ ہے کہ صرف گزشتہ 140 دنوں میں غزہ اور مغربی کنارے میں ایک لاکھ سے زیادہ "انسانوں کا قتل عام کیا گیا یا ملبے تلے دب چکے ہیں، اور زندہ بچنے والوں کو بھوک اور متعدی بیماریوں کے باعث موت کا خطرہ لاحق ہے۔
عزیز دوستو،
آئیے آج کے اس اہم اجلاس میں یہ طے کریں کہ نسل کشی اور وحشیانہ جرائم کو معمول بننے نہ دیا جائے گا۔ اس سلسلے میں آپ کی توجہ مقبوضہ فلسطین کے انسانی حقوق کے خصوصی نمائندے کی رپورٹ کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں، جس میں غزہ اور مغربی کنارے میں ہونے والے جرائم اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی سنگینی اور بے پناہ حجم کو دکھایا گیا ہے۔
آج دنیا امریکہ اور اس کے بعض اتحادیوں کی طرف سے صیہونی حکومت کی شرمناک حمایت کا مشاہدہ کر رہی ہے، یہ حمایت در حقیقت فلسطینیوں کی نسل کشی میں قابض رجیم کے ساتھ شریک ہونا ہے۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کو انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کے اعلیٰ ترین مظہر کے طور پر صیہونی حکومت اور اس کے حامیوں کو انسانیت کے خلاف ان کے جرائم کا محاسبہ کرنا چاہیے۔
بلاشبہ، گزشتہ 8 دہائیوں کے دوران اسرائیلی حکام کا مواخذہ نہ ہونا اور انہیں کھلی چھوٹ ملنا اس حکومت کی طرف سے قبضے اور قتل و غارت گری میں اضافے کی بنیادی وجہ ہے۔
میں اس بات پر زور دیتا ہوں کہ فلسطینیوں کے خلاف سنگین ترین بین الاقوامی جرائم کے مرتکب افراد اور کمانڈروں کے ٹرائل اور سزا کو مجاز بین الاقوامی اداروں بالخصوص بین الاقوامی فوجداری عدالت کے ایجنڈے میں سنجیدگی سے شامل کیا جانا چاہیے۔
جناب صدر؛
موجودہ دور کا سب سے بڑا چیلینج یا معمہ ایک طرف خواتین کی قدر، وقار اور حقوق کے بارے میں فکر مند آوازوں کا عالمی سطح پر اضافہ ہے تو دوسری طرف امتیازی سلوک کی وسیع پیمانے پر شدت، خواتین کے مقام و مرتبے کو پامال کرنا اور خاندانی اور سماجی انصاف کی سرگرمیوں میں ان کے منفرد کردار کو نظر انداز کرنا ہے۔
میں ببانگ دہل کہتا ہوں کہ انسانی حقوق کا موجودہ بین الاقوامی ریکارڈ شرمناک ہے کیونکہ غزہ میں شہید ہونے والی خواتین کی تعداد ہزاروں تک پہنچ چکی ہے اور خواتین اور بچوں کے خلاف یہ بے شرمی قتل عام اور نسل کشی کی شکل میں جاری ہے۔
دنیا میں انسانی حقوق کے مقام کی بحالی کا تقاضا ہے کہ ہم قابض صیہونی حکومت کو فلسطینیوں کی نسل کشی جاری رکھنے کی اجازت نہ دیں کہ جو اپنے فضائی، سمندری اور زمینی حملوں کے ذریعے غزہ میں قحط کا باعث بنی ہے۔
خواتین و حضرات؛
ہم نہیں بھولیں ہیں کہ گذشتہ سال ایران میں ایک عزیز لڑکی کی المناک موت کہ جو ہمارے لئے نہایت غم انگیز تھی، پر اس ایوان میں کتنا شور شرابہ کیا گیا تھا اور ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنائی گئی تھی، لیکن آج ہمیں غزہ میں ہزاروں بے گناہ افراد کے قتل عام کا سامنا ہے جس پر یہ ایوان خاموش ہے۔ گویا اسے سانپ سونگھ گیا ہے اور اقوام متحدہ کی سطح پر بھی کوئی سنجیدہ تحریک نظر نہیں آرہی ہے۔
اس نکتے کو ایک بار پھر دہرانے کی ضرورت ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران میں اس طرح کے فعال میکانزم کی موجودگی کے باوجود حقیقت کی تلاش کے بہانے میرے ملک کے خلاف فیکٹ فائنڈنگ کی کوئی منطقی بنیاد اور بین الاقوامی قانونی جواز نہیں بنتا ہے اور یہ صرف سیاسی مقاصد کے لئے انسانی حقوق کی پامالی کے نام پر دباو کی کوشش ہے۔
جناب صدر؛
دہشت گردی اور انتہا پسندی کا مکروہ اور خطرناک رجحان کئی انسانی جانوں کا خراج لے چکا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران دہشت گرد گروہوں کے خلاف جنگ میں سب سے آگے رہا ہے اور اس راہ میں بہت سے شہید دے چکا ہے اور ہمیشہ عالمی برادری کے سنجیدہ عزم اور بین الاقوامی اداروں کے دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن اور موثر جنگ کے لیے باہمی تعاون کی ضرورت پر تاکید کرتا آیا ہے۔
دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سب سے بڑھ کر یہ ضروری ہے کہ امریکہ سمیت بعض ممالک کی طرف سے دہشت گردی کے شرمناک استعمال کو روکا جائے۔
بدقسمتی سے بعض مغربی ممالک دہشت گرد عناصر کی میزبانی جاری رکھے ہوئے ہیں اور یہ انسانی حقوق کے تحفظ کے نعروں میں مغرب کے تضاد اور منافقت کی ایک اور مثال ہے۔
جناب صدر؛
اسلامو فوبیا، جو بنیادی طور پر نسل پرستانہ گفتگو کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے، مغرب ممالک کے سیاسی حلقوں میں کئی طریقوں سے جاری ہے۔ اس انتہا پسندی کا نتیجہ دنیا کے مختلف حصوں میں امتیازی سلوک، خاص طور پر مسلمان افراد اور کمیونٹیز کے خلاف مذہب کی بنیاد پر تشدد میں اضافہ ہے۔ جب کہ اسلام رحمت اور انسانیت کا دین ہے اور اس چیلنج کے بارے میں انسانی حقوق کونسل میں مسلسل غور کرنے کی ضرورت ہے۔
اس سلسلے میں اقوام کے ملی، ثقافتی اور مذہبی عقائد اور اقدار کا احترام کیا جائے اور پیشگی تیار کردہ نسخے (مغربی ممالک کی خواہشات) کو مسلط کرنے سے گریز کیا جائے۔
جناب صدر؛
یکطرفہ جبر کے اقدامات منظم طریقے سے پابندیوں کے تحت متاثرہ ممالک کے خلاف بنیادی انسانی حقوق کی خلاف کا ورزی کا باعث بنتے ہیں اور لوگوں کو شدید نقصان پہنچاتے ہیں۔ اقوام کے خلاف یکطرفہ پابندیاں لگانا ایک غیر قانونی عمل اور انسانیت کے خلاف جرم کے مترادف ہے۔
جناب صدر؛
آخر میں میں اس بات پر زور دینا چاہوں گا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی بنیادی پالیسی ہمیشہ بات چیت اور تعامل پر مبنی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران تعاون اور تعامل کی پالیسی کے ساتھ اپنی غیر متزلزل وابستگی کا اپنی خارجہ پالیسی کے کلیدی اصول کے طور پر خاص طور پر انسانی حقوق کے میدان میں اعلان کرتا ہے۔
اور مذہبی اقدار پر مبنی انسانی حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لیے اپنی قومی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے سے دریغ نہیں کرے گا۔
آپکی توجہ کا شکریہ