مہر خبررساں ایجنسی، دینی ڈیسک؛ آج 15 شعبان المعظم امام مہدی علیہ السلام کا یوم ولادت ہے۔ اسی مناسبت سے، مہدیت پر ایمان لانے کی ضرورت کی وجوہات اور ظہور کے منتظر افراد کی خصوصیات کے بارے میں مزید جاننے کے لیے، ہم نے حضرت مہدی کلچرل فاؤنڈیشن کے نائب صدر برائے تعلیم و تحقیق حجت الاسلام ناصری سے گفتگو کی۔ذیل میں قارئین کی خدمت میں ان کا انٹرویو پیش کیا جاتا ہے
مہر نیوز: سب سے پہلے مہدیت پر ایمان لانے کی ضرورت کے بارے میں بتائیں:
حضرت امام ہادی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میرے بعد امام میرا بیٹا حسن ہو گا اور ان کے بعد ان کا بیٹا قائم ہو گا جو زمین کو عدل سے بھر دے گا جیسا کہ وہ ظلم سے بھری ہوئی تھی۔ مہدیت اور آخری نجات دہندہ پر عقیدہ تمام مذاہب میں موجود ہے، لیکن اسلام میں اس عقیدے کا زیادہ واضح اور شفاف اظہار کیا گیا ہے، اور عالمگیر مصلح کی خصوصیات کو بھی احتیاط سے بیان کیا گیا ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور معصوم ائمہ معصومین علیہم السلام نے موعود مہدی کے آنے کا اعلان کیا ہے اور اس حدیث میں امام ہادی نے اپنے اگلے امام اور بارہویں امام کا تعارف کرایا ہے تاکہ شیعوں کو رہبر حق کا علم ہو جائے اور اس میں الجھن کا شکار نہ ہوں۔ اگلے امام کے تعارف کا یہ طریقہ ان تمام ائمہ میں عام تھا جنہوں نے اپنی شہادت سے پہلے اگلے امام کا تعارف کرایا۔
عالمی سطح پر عدل و انصاف کو پھیلانے کی خصوصیت جو حضرت مہدی علیہ السلام کے لیے بیان کی گئی ہے بہت سی روایات میں بیان ہوئی ہے اور یہ بشارت مظلوموں کو مظلوم انسانیت کے روشن اور امید افزا مستقبل کی طرف ترغیب دیتی ہے۔
مہرنیوز: حضرت امام مہدی عجل اللہ فرجہ کے منتظر حقیقی کی خصوصیات کیا ہیں؟
لخدا کی عبادت اور اس کے سامنے بندگی کا اظہار کرتے ہوئے انسان بلندی تک پہنچ سکتا ہے۔ انبیاء و ائمہ جو کہ بہترین انسان تھے، نماز، تہجد اور شب بیداری جیسی عبادتوں میں دوسروں سے آگے تھے۔ ان کے حقیقی پیروکار بھی ایسے ہی ہونے چاہئیں، امام زمانہ کے حقیقی منتظرین میں بھی یہ جذبہ اور عمل ہونا چاہیے تاکہ خدا، رسول اور امام زمانہ سے محبت ہو، کیونکہ یہ ان کے آقاؤں کی بھی خصوصیت ہے۔ حضرت امام صادق علیہ السلام اصحاب امام زمانہ علیہ السلام کے بارے میں فرماتے ہیں: وہ رات کو عبادت کے لیے کھڑے ہوتے ہیں اور دن کو گھوڑوں پر سوار ہوتے ہیں اور جہاد کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ائمہ اطہار کی زندگی عبادات و دعاؤں، طویل سجدوں اور لمبی دعاؤں سے بھری پڑی ہے۔ حضرت امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جب بھی خدا کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو اسے اچھی عبادت کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔امام زمانہ کے حقیقی منتظرین یہی ہیں۔
مہر نیوز: انسانی ترقی اور ہدایت معاشرے کی ترقی پر استوار ہے جس کا بہترین نمونہ حضرت امام زمان علیہ السلام کے ظہور کے بعد معاشرے میں نظرآئےگا جامع فکری اور اخلاقی ترقی کی روشنی میں انسانوں کی کمال پرستی اور نشوونما کے امکانات پر توجہ دینا ضروری ہے، یہ رویہ تمام معاشروں اور تمام عمروں پر لاگو ہوسکتا ہے۔ براہِ کرم اس حوالے سے کچھ وضاحت فرمائیں
اگر انسان میں اخلاقی بصیرت اور اعلیٰ اور درست تعلیم ہو تو وہ معاشرے کو انسانی اور الٰہی کمالات کی طرف لے جا سکتا ہے اور معاشرے کے افراد کو تباہی سے بچا سکتا ہے اور ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے سکتا ہے جو دوسرے معاشروں کے لیے نمونہ ہو سکے۔اخلاقی تعلیم کے سائے اور انسانی عقل کی نشوونما اور نشوونما حاصل ہوتی ہے۔ اخلاقی تعلیم کا مقصد لوگوں کو اخلاق اور نیکی کی طرف دعوت دینا اور نفس کو برائیوں سے نکالنا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ انسان اپنے آپ پر قابو رکھے، اپنی نفسانی خواہشات پر قابو رکھے اور غیر اخلاقی چیزوں سے بچے۔ تعلیمات الہی میں انسان کی اخلاقی نشوونما پر بھرپور توجہ دی جاتی ہے اور درحقیقت تعلیم کو اخلاقی تعلیم سمجھا جاتا ہے اور قرآن کریم نے اس اہم مشن پر زور دیا ہے۔ اس لیے کہ انسان کا سب سے بڑا دشمن اس کی انا ہے کیونکہ اس کو عقل تک رسائی ہے۔
مہر نیوز: آیات و روایات کے مطابق تمام اخلاقی برائیوں اور گناہوں کا منبع کیا ہے؟
نفسانی خواہشات کی پیروی، جہالت، دنیا سے لگاؤ، شیطان کی اطاعت، کفر اور نفاق تمام برائیوں کی جڑیں ہیں۔ روایت ہے کہ اپنے نفس کی خواہشات کی پیروی نہ کرو تاکہ حق سے منحرف نہ ہو جاؤ۔ انسان کی خصوصیات میں سے ایک اس کی تربیت کی صلاحیت ہے، درحقیقت انبیاء کے بھیجنے کی بنیاد انسان کی تربیت تھی۔
اسلام میں انسان کی تعلیم اور نشوونما کے لیے منصوبہ پیش کیا گیا ہے جو خالق کائنات نے اس کے لیے مقرر کیا ہے۔ اس تعلیمی کامیابی کا راز اسلام کی انسان کی تمام جہتوں، خاص کر اس کی روحانی اور فکری جہتوں کی طرف توجہ ہے۔ اس پروگرام کا اعلان خدائے بزرگ و برتر کی طرف سے اور پیغمبر کے ذریعے کیا گیا ہے اور امام زمانہ عج کے ہاتھوں مکمل طور پر پورا ہوگا۔ اسلامی نظام تعلیم کی بنیاد ایمان اور خدا سے محبت اور عمل صالح ہے۔ اس حقیقت پسندانہ نظام میں انسان کی فکری اور فکری نشوونما کے ساتھ ساتھ خودی کو بھی ایک خاص مقام حاصل ہے۔
مہر نیوز: غیبت کے دور میں دینی بصیرت کی کیا اہمیت ہے؟
ظہور تک انتظار کا طویل سفر طے کرنے کے لیےبصیرت کی ضرورت ہوتی ہے، یعنی انتظار کرنے والے کے پاس فکری اور معاشرتی مسائل میں عمل کی بصیرت ہونی چاہیے تاکہ وہ دھوکے میں نہ آئے اور حق کے بجائے باطل کو قبول نہ کرے۔ دین میں بصیرت بہت ضروری ہے، خاص طور پر غیبت کے دور میں، جب امام معصوم تک رسائی نہ ہو، اور اس کے بغیر، عوام جو بصیرت سے عاری ہوتے ہیں، معمولی شک میں گمراہ ہو جاتے ہیں، اور جھوٹے مذاہب کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔