مہر خبررساں ایجنسی نے رشیا ٹوڈے کا حوالے سے خبر دی ہے کہ امریکی تھنک ٹینک "ہارٹ لینڈ انسٹی ٹیوٹ" کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ 2020 کے امریکی صدارتی انتخابات میں پوسٹل ووٹوں میں ریگنگ نے اس سال کے انتخابات کے نتائج کو نمایاں طور پر متاثر کیا اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی شکست اور اس ملک کے موجودہ صدر جو بائیڈن کی جیت کا باعث بنی۔
اس تھنک ٹینک نے لکھا ہے: اگر 2020 کے انتخابات پچھلی دو صدیوں کے دوران ہونے والے تمام قومی انتخابات کی طرح ہوتے اور ووٹروں کی اکثریت نے بذریعہ ڈاک کے بجائے براہ راست ووٹنگ میں حصہ لیا ہوتا تو ڈونلڈ ٹرمپ تقریباً بلا شبہ دوبارہ صدر بن جاتے۔
مذکورہ تھنک ٹینک کے مطابق پوسٹل ووٹروں میں سے 28.2 فیصد شاید کسی نہ کسی قسم کی دھوکہ دہی میں ملوث ہیں، اور ہر ایک کسی نہ کسی ایسے طرز عمل کا مرتکب رہا ہے جسے " اکثر حالات میں غیر قانونی" سمجھا جاتا ہے۔
اس انتخابی دھوکہ دہی کہ جس کے دوران 43% سے زیادہ پوسٹل ووٹرز (امریکی تاریخ میں سب سے زیادہ فیصد) نے انتخابی نتائج کو "شاندار لیکن حیران کن" انداز میں متاثر کیا۔
مذکورہ تھنک ٹینک نے دسمبر کی ایک تحقیق میں، 1,085 ووٹرز کا سروے کیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ پوسٹل ووٹوں میں سے ہر پانچ میں سے ایک فراڈ تھا۔ اکیس فیصد جواب دہندگان نے تسلیم کیا کہ انہوں نے کسی اور کے نام پر بیلٹ بھرے یا ایسی ریاست میں ووٹ دیا جہاں وہ اب مستقل رہائشی نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ، 17٪ نے کہا کہ وہ اجازت کے بغیر اپنے خاندان کے افراد کے فارم کو بھرتے اور دستخط کرتے رہے ہیں.
ہارٹ لینڈ تھنک ٹینک نے مزید انکشاف کیا کہ پوسٹل ووٹوں میں ممکنہ فراڈ کا امکان 28.2 فیصد ہے، اور اس کا مطلب ہے کہ پوسٹل ووٹرز نے بائیڈن کو ترجیح دی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے: اگر امریکی قانون سازوں نے اس مسئلے کو حل نہیں کیا، تو 2024 اور اس کے بعد کے انتخابات کی قانونی حیثیت پر امریکیوں کا اعتماد کم ہو جائے گا، جس سے افراتفری اور شہری بدامنی کی راہ ہموار ہو گی۔