مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ہیئت سید الشہداء العالمیہ کی جانب سے ایام فاطمیہ کے موقع پر سہ روزہ مجالس عزا کی پہلی مجلس سے خطاب کرتے ہوئے کہا آیت اللہ سید عقیل الغروی نے کہا کہ قرآن کو لکھنے اور پڑھنے کا طریقہ ائمہ مخصوصا حضرت علی علیہ السلام نے سکھایا۔ لکھنے کے طریقے کو علم رسم القرآن اور پڑھنے کے طریقے کو علم تجوید القرآن کہا جاتا ہے۔ ہمیں قرآن پڑھتے ہوئے اسی لہجے کو اختیار کرنا چاہئے جو علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا لہجہ تھا کیونکہ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا ہے۔ جس طرح ہر مجلس میں سوزخوانی ضروری سمجھی جاتی ہے، اسی طرح قرآن کی تلاوت بھی مجلس کے آغاز میں ضروری ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ حضرت حجۃ ابن الحسن عج ایسا معاشرہ تشکیل دیں گے جس میں ہر مومن کی قرائت اور کردار اتنا اچھا ہو کہ آگے بڑھ کر نماز جماعت کی امامت کرسکے۔
آیت اللہ عقیل الغروی نے کہا کہ قرآن میں دو قسم کے غرائب پائے جاتے ہیں، پہلی قسم وہ الفاظ جن کے معنی سے عرب واقف نہیں اور دوسری قسم وہ جو عربوں میں مستعمل تو ہے لیکن قرآن نے اس انداز میں استعمال کیا ہے جس کا معنی سمجھنا عرب کے لئے مشکل ہے۔ سورہ کوثر میں دو الفاظ غریب القرآن ہیں۔ پہلا لفظ الکوثر ہے جس کو ایسے معنی میں استعمال کیا گیا ہے جس سے عرب واقف نہیں تھے۔ قاری اس لفظ کو معنی کو درست درک نہیں کرسکتا ہے اسی لئے اس کے بارے میں کئی معانی بتائے جاتے ہیں۔ جنہوں نے کوثر کا صحیح معنی نہیں سمجھا، کئی معانی بیان کئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دوسرا لفظ انحر ہے جو غرائب القران میں سے ہے کیونکہ اس کے کئی معانی بیان کئے جاتے ہیں جن سینہ، حلقوم کا مخصوص حصہ، قبول کرنے کا کنایہ یعنی کسی ہدیہ کو قبول کرنے کے لئے حلقوم کے نزدیک ہاتھ رکھا جاتا تھا جو قبولیت کی علامت ہوتی تھی، ذبح کرنا شامل ہیں۔ اللہ نے جب نعمتیں تمام کیں تو اب قربانی بھی دو۔ اللہ کے حضور سب سے زیادہ قربانی محمد اور آل محمد نے پیش کی۔