مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصر اللہ خطے کی تازہ ترین صورتحال اور غزہ کے خلاف صہیونی جرائم سے متعلق اہم خطاب شروع۔
انہوں نے خطاب میں کہا کہ شہداء فلسطین پر ہم فخر کرتے ہیں اور یہی شہداء اور انکی فیملی ہماری طاقت ہیں جنہوں نے سب کچھ اسلام اور مقدسات کے لئے قربان کیا۔
انہوں مزید کہا کہ طوفان الاقصی اب کئی مختلف محاذوں اور میدانوں میں پھیل چکا ہے۔
سید مقاومت نے مزید کہا کہ صہیونیوں کے ساتھ ہماری جنگ راہ خدا میں جنگ کا بہترین نمونہ ہے اور دنیا میں فلسطینی قوم کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری اصل طاقت ایمان، بصیرت اور آمادگی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہم مکمل طور پر جائز جنگ کی بات کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں صیہونیوں کے ساتھ جنگ سے زیادہ جائز جنگ نہیں ملے گی۔
سید مقاومت نے فرمایا کہ صیہونیوں کے خلاف طوفان الاقصی کی جنگ اخلاقیات اور قانونی حیثیت کے معاملات میں کوئی ابہام نہیں رکھتی۔
عراق اور یمن کے مقاومتی محاذ کا جنہوں نے جنگ غزہ میں حصہ لیا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
انہوں نے مزید کہا کہ طوفان الاقصی کی جنگ 100 فیصد فلسطینیوں کی فیصلہ سازی اور عمل درآمد تھی۔ہزاروں فلسطینی قیدی کئی سالوں سے جیلوں میں قید ہیں اور کسی نے اس سلسلے میں کوئی تحریک نہیں چلائی۔
انہوں نے مزید کہا کہ غزہ میں تقریبا 20 سال سے دو ملین سے زائد افراد محاصرے میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ صہیونی وحشی حکومت کی وجہ سے مقبوضہ علاقوں میں کئی سال سے حالات بہت ناسازگار ہوچکے ہیں۔
سید مقاومت نے کہا کہ دنیا کے مختلف خطوں میں فلسطینی عوام کے خلاف صہیونی جارحیت کے خلاف مظاہروں پر شکریہ ادا کرتے ہیں۔
طوفان الاقصی مکمل طور پر فلسطینی ہے۔
آپریشن کی اس رازداری نے اسے کامیاب بنایا۔ حزب اللہ بالکل پریشان نہیں تھی کیونکہ اسے آپریشن کے بارے میں علم نہیں تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ اس کارروائی کا تعلق ایران سے ہے۔ یہ اقدام سو فیصد فلسطینی ہے اور ان مسائل کو بیان کرنا صرف توجہ ہٹانے کے لیے ہے۔
سید مقاومت نے مزید کہا کہ ایران کھلے عام مزاحمت کی حمایت کرتا ہے لیکن طوفان الاقصی میں ایران کا کوئی کردار نہیں ہے۔
اسرائیل مکڑی کے جالے سے بھی کمزور ہے۔
امریکہ اسرائیل غاصب حکومت کی مدد کرنے میں جلد بازی ان کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔ طوفان الاقصی میں جو کچھ ہوا وہ بہادری اور جرأت مندانہ تھا۔
طوفان الاقصیٰ نے اسرائیل کی کمزوری کو بے نقاب کر دیا اور یہ ثابت ہوا کہ اسرائیل واقعی مکڑی کے جالے سے زیادہ کمزور ہے۔
انہوں نے مزید کہ کپ امریکہ فوری طور پر اس لڑکھڑاتی ہوئی حکومت کو بچانے اور اسے اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔
طوفان الاقصی نے اسرائیل میں ایک زلزلہ برپا کردیا
غزہ اور غرب اردن کے عوام کی جرات اور بہادری کو الفاظ اور جملوں کی صورت میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔
اسرائیل پہلے دن سے ہی امریکہ سے رقم اور ہتھیاروں کا مطالبہ کر رہا ہے۔
حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ آپریشن طوفان الاقصی کا فیصلہ دانشمندانہ اور جرات مندانہ اور صحیح وقت پر درست تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینی مزاحمت کے خلاف اس آپریشن کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا اور یہ صحیح وقت پر ایک جرات مندانہ اور دور اندیش فیصلہ تھا۔
پہلے گھنٹوں سے ہی یہ بات واضح تھی کہ دشمن طوفان اقصیٰ کے وقت کا پتہ نہیں لگا سکا اور الجھن کا شکار تھا۔
اہداف کے انتخاب میں اشتباہ صہیونیوں کی سب بڑی غلطی ہے
شروع میں کہتے تھے کہ حماس کی نابودی اولین ترجیح ہے حالانکہ ذرہ برابر بھی عقل رکھنے والا جانتا ہے کہ حماس کی نابودی کو ہدف ناقابل حصول ہے۔
اس کے بعد کہنا شروع کیا کہ قیدیوں کو آزاد کرنا چاہتے ہیں۔ حالات سے آگاہی رکھنے والے جانتے ہیں کہ شرائط قبول کئے بغیر قیدیوں کی رہائی ممکن نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ تیس دنوں سے نام نہاد انسانی حقوق کے مغربی علمبرداروں کی نظروں کے سامنے غزہ پر بمباری کی جارہی ہے۔
غزہ میں جو کچھ ہوا وہ اسرائیل کی حماقت اور نااہلی کو ظاہر کرتا ہے، تقریبا ایک ماہ گزرنے کے بعد بھی اسرائیلی فوج غزہ میں ایک بھی کامیابی حاصل نہیں کرسکی ہے۔ انہیں ایک ماہ کے بعد بھی کوئی فوجی کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ کوئی عام جنگ نہیں بلکہ فیصلہ کن اور تاریخی جنگ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل کے ساتھ ابتداء سے ہی حالت جنگ میں ہے لیکن طوفان الاقصیٰ کے فوراً بعد سے ہم جنگ میں شریک ہیں۔
اس جنگ کا براہ راست ذمہ دار امریکہ ہے۔ وہ جنگ بندی اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیل کی مذمت کو روکتے ہیں اور اسی لئے امام خمینی نے کہا کہ امریکہ بڑا شیطان ہے۔
عراق اور شام میں امریکی اڈوں پر مزاحمت کی طرف سے حملہ دانشمندانہ اور بہادرانہ ہے۔ عراقی مزاحمت آنے والے گھنٹوں اور دنوں میں مزید حملے کرے گی اور انشاء اللہ ہم دیکھیں گے۔
غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ پچھلی جنگوں کی طرح جنگ نہیں ہے بلکہ ایک فیصلہ کن اور تاریخی جنگ ہے۔
غزہ کی جنگ میں دو مقاصد حاصل ہونا چاہیے۔
پہلا مقصد انسانی اور دینی ہمدردی کی بنیاد پر جنگ بندی اور دوسرا حماس کی جیت، حماس کو ہر حال میں جیتنا چاہیے۔
آج غزہ کی فتح خطے کے تمام ممالک کے قومی مفاد کے لیے ضروری ہے۔ اگر غزہ ناکام ہوا تو خطے کے تمام ممالک اور لبنان کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ اسرائیل کو برآمد کرنا بند کریں۔ تیل اور کھانا بھیجنا بند کریں۔
کیا عربوں کی ناتوانی اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ وہ غزہ تک انسانی امداد نہیں پہنچا سکتے اور زخمیوں کو نکال نہیں سکتے؟
عراق میں اسلامی مزاحمت نے ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ وہ ایک نئے مرحلے میں داخل ہو سکتی ہے۔
یمنی میزائل ایلات کی بندرگاہ تک پہنچ گئے ہیں۔ باقی دنیا کی طرح ہمیں بھی ہفتے کے دن پتہ چلا۔
جو پوچھتے ہیں کہ کب جنگ میں شامل ہوجائیں گے؟ میں اعلان کرتا ہوں کہ ہم 8 اکتوبر کو جنگ میں داخل ہوچکے ہیں۔حقیقت میں ہم دوسرے دن سے ہی جنگ میں داخل ہوچکے ہیں۔ لبنانی محاذ پر پیش آنے والے حادثات انتہائی اہم ہیں۔ ہم سرحدوں پر حملے پر اکتفا نہیں کریں گے۔
انہوں نے فرمایا کہ ہمارے شہداء کی کثیر تعداد کو جنگ کے الگے محاذوں پر جانے کا اصرار تھا۔ لبنان میں مقاومت کی طرف سے تمام سرحدی مقامات کو روزانہ ٹارگٹڈ حملوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے جس میں مختلف نوعیت کے ہتھیاروں کے ذریعے ٹینکوں، گاڑیوں، فوجیوں اور ان کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
سید مقاومت نے کہا کہ لبنان میں مزاحمتی محاذ ایک تہائی صہیونی فوج کو لبنان کی سرحد پر مشغول رکھنے میں کامیاب رہا۔ ہم نے دشمن کی آنکھیں موند کر نئے اہداف کے ساتھ بھرپور جنگ شروع کر دی ہے، خبروں سے آگاہی رکھنے والے ہی جانتے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ لبنان کی سرحد پر اس کارروائی نے اسرائیل اور امریکہ کی قیادت پر خوف و وحشت طاری کردی ہے۔ دشمن آج تمام مزاحمتی کارروائیوں کو برداشت کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ اسے حقیقی خوف ہے کہ حالات ایسا رخ اختیار نہ کریں جس سے وہ ڈرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حزب اللہ پر پیشگی حملہ جس پر اسرائیل غور کر رہا ہے وہ ان کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی ہو گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں ہر روز عرب ممالک کی طرف سے پیغامات موصول ہوتے ہیں کہ ہم کارروائی نہ کریں، پہلے دن سے انہوں نے ہمیں بتایا کہ اگر آپ جنوب میں آپریشن کرنے کا سوچتے ہیں تو امریکی بحری بیڑا آپ پر بمباری کرے گا۔ دھمکیوں سے ہمارا موقف نہیں بدلا۔ امریکیو! سن لو ہم نے تہمارے بحری جہازوں کے لئے مخصوص چیزیں تیار کر رکھی ہیں۔ دھمکی راہ حل نہیں ہے، تنہا راہ حل غزہ پر مظالم کا خاتمہ اور جنگ بندی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حزب اللہ کے پاس تمام آپشنز موجود ہیں اور ہم کسی بھی لمحے، کسی بھی قسم کی صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔ اگر امریکہ اور مغربی ممالک چاہتے ہیں کہ جنگ کا دائرہ مزید نہ پھیلے تو اس کا ایک ہی راہ حل ہے کہ غزہ پر حملے بند کئے جائیں۔
امریکہ بخوبی جانتا ہے کہ جنگ ہونے کی صورت میں نہ بحری بیڑا کام آئے گا اور نہ فوجی، سب سے بڑا نقصان آپ کا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ 33 روزہ جنگ میں جب کوئی امید کی کرن نہیں تھی اس وقت امام خامنہ ای نے مجھ سے کہا تھا کہ آپ کامیاب ہوجائیں گے کیونکہ طاقت کے ایک بڑے سرچشمے سے متصل ہیں۔