مبصرین کے مطابق افریقہ کے مرکزی اور مغربی ممالک میں فوجی بغاوتوں کے اقتصادی، سیاسی اور دفاعی عوامل ہیں جن کی وجہ سیاسی نظام کی کمزوری اور پیچیدہ قبائلی نظام ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی- بین الاقوامی ڈیسک؛ المیادین چینل نے اپنی رپورٹ میں افریقہ کے مرکزی اور مغربی ممالک میں فوجی بغاوتوں کے اقتصادی، سیاسی اور دفاعی عوامل اور پیغامات کو تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیاسی کمزوری اور قبائلی پیچیدگی ایک طرف جبکہ دوسری اقتصادی بدحالی کی وجہ سے افریقی ممالک جدید دنیا میں کوئی مقام پیدا کرنے سے قاصر ہیں۔ افریقہ کے اکثر ممالک میں ان عوامل کو اب بھی مشاہدہ کرسکتے ہیں۔

کمزور سیاسی نظام اور ملکی ساختار کی وجہ سے یہ ممالک دنیا پر مسلط طاقتوں کے لئے فرمانبردار ملک کی حیثیت سے ہی زندہ ہیں۔ اگرچہ انسانی وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن بنیاد میں موجود کمزوریوں کی وجہ سے اس سرمایے سے استفادہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ غیرملکی اور سامراجی طاقتیں افریقی ممالک کے وسائل اور نظام پر قابض ہیں جو سیاسی اور دفاعی طور پر پورا سسٹم اپنے ہاتھ میں لے کر ان ممالک کو ترقی اور پیشرفت سے روک رہی ہیں۔ اس حوالے سے بین الاقوامی اور مقامی سطح پر ہونے والے معاہدے بھی رکاوٹ اور مانع بنتے ہیں۔ عالمی طاقتوں نے آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعے ان ممالک میں اپنا سرمایہ دارانہ نظام نافذ کررکھا ہے۔

مغربی افریقہ کی اقتصادی تنظیم اکوواس پانچ افریقی ممالک کی مشترکہ تنظیم ہے جس کا صدر دفتر نائجیریا میں واقع ہے۔ اس گروہ کی تشکیل ان نوعیت کا دنیا میں پہلا تجربہ ہے۔ تنظیم کے اغراض و مقاصد میں کسٹم فری نظام متعارف کرانا، مشترکہ مارکیٹ، مشترکہ سرمایہ کاری اور مشترکہ کرنسی کا اجراء شامل ہے جس کے لئے مغربی افریقی ممالک کا ایک مرکزی بینک بنایا جائے گا۔

اکوواس نے ۲۰۱۹ میں ایک معاہدے کے ذریعے فرانسیسی استعمار سے خود کو آزاد کرنے کا اعلان کیا تھا۔ معاہدے کے مطابق ۲۰۲۷ تک ۸ افریقی ممالک کے مرکزی بینک کے فرانسیسی خزانے میں موجود اثاثوں کو منجمد کیا جائے گا۔ فرانس اس اتحاد میں شامل ممالک کے حکومتی اداروں میں موجود اپنے اہلکاروں کو واپس بلانے کی پابند ہوگی اور تنظیم کے رکن ممالک کی مشترکہ کرنسی کا جدید نام بھی رکھا جائے گا۔

فرانسیسی پارلیمنٹ نے ایک خصوصی اقدام کے تحت اس معاہدے کو ۲۰۲۰ میں منظور کرلیا تھا۔ اس اقدام کے نتیجے میں اب تک کوئی خطرہ ایجاد نہیں ہوا ہے لیکن کچھ اثرات ظاہر ہورہے ہیں۔

افریقہ کے دوسرے اقتصادی گروہوں مثلا کومیسا اور مرکزی افریقہ کے ممالک کی تنظیم کے مقابلے میں اکوواس کو زیادہ کامیابی نصیب ہوئی ہے۔ اکوواس رکن ممالک میں عدم استحکام کی وجہ سے کئی مرتبہ مشکلات کی بھی شکار ہوگئی ہے۔ تنظیم نے مالی، گینہ اور بورکینافاسو کی رکنیت فوجی بغاوت کی وجہ سے ختم کردی ہے۔

معزول صدر کو اقتدار میں واپس لانے کے لئے غیر ملکی مداخلت کی صورت میں مالی اور بورکینافاسو کی جانب سے فوجی طاقت کے استعمال کی دھمکی کے بعد حالات مزید خراب ہوسکتے ہیں۔ یاد رہے کہ فرانس کی جانب محمد بازوم کی حکومت بحال کرنے کی کوششوں اور پیل کا اکوواس کے رکن ممالک ساتھ دے رہے ہیں جن میں نائجیریا بھی شامل ہے۔ نائجیریا اکوواس کا سب سے بڑا رکن ملک ہے۔ اس اپیل کے بعد نائجیر کو بجلی اور توانائی کی فراہمی کا عمل رک سکتا ہے۔ اس اپیل کے ساتھ ہی نائجیر کی سابق حکومت کے وزیراعظم نے پیرس میں عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ نائجیر میں سابق صدر بازوم کی حکومت کو بحال کرنے میں تعاون کرے۔ البتہ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ نائجیر پر پابندی عائد کرنے کے بجائے بغاوت کو روکنے کے لئے دوسرا طریقہ اختیار کیا جائے کیونکہ پابندیوں کی وجہ سے نائجیر مزید مشکلات کا شکار ہوجائے گا۔

فرانس کی جارحانہ موقف کے باوجود نائجیر میں جمہوری حکومت کی بحالی کے امکانات کم ہیں۔ نائجیر میں بغاوت سے پہلے مالی اور بورکینافاسو میں بھی فرانس کا اثر و رسوخ کم ہوگیا ہے جس کی تقلید کرتے ہوئے نائجیر میں بھی فرانس کے خلاف رائے عامہ ہموار ہورہی ہے۔

روس کی طرف سے یورپ کو توانائی کی درآمد کے سلسلے میں مشکلات پیدا ہونے کے بعد افریقہ کا یہ علاقہ مخصوصا نائیجر کی اہمیت کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ یورپ کی درآمد ہونے والے یورنئیم کا چوتھا جبکہ فرانس کا ایک تہائی فیصد نائیجیر سے درآمد کیا جاتا ہے۔ دوسری جانب فرانس میں توانائی کی فراہمی کے لئے یورنئیم کی شدید ضرورت ہے۔

فرانس میں توانائی کے بحران کے ساتھ ہی عوامی سطح پر شدید مظاہرے ہورہے ہیں جس سے سیاسی بحران پیدا ہوا ہے۔ اس بحران کی وجہ سے فرانس کی معیشت کو ۱۰ ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ لبنان سے لے کر الجزائر اور مغربی افریقہ تک پیدا ہونے والے بحران کی تازہ لہر کی وجہ سے فرانسیسی پالیسی ساز نئے چلینجز سے روبرو ہوگئے ہیں۔ فرنچ پالیسی سازوں کے لئے افریقہ کے اس خطے کو نظرانداز کرنا نہایت مشکل امر ہے۔

۲۰۲۰ میں بغاوت کے بعد مالی کے نئے حکمرانوں کے ساتھ فرانس کے تعلقات ابھی تک معمول پر نہیں آئے ہیں۔ نائیجیر کے واقعات نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے اور سابق صدر کو جیل میں ڈال کر اقتدار پر قبضہ کرنے والوں کے فرانس کے حوالے سے کوئی اچھے خیالات نہیں ہیں۔

یہ کہنا مشکل ہے کہ بغاوت کا ایسا واقعہ اس خطے میں نیا ہے۔ ایک ایسا خطہ جس نے قومی آزادی کے دوران فرانس کے ساتھ بڑے بڑے محاذ آرائیوں کا تجربہ کیا ہے، بعض ممالک کے باشندوں کی اوسط تعداد عالمی اوسط سے زیادہ ہے، اس کے علاوہ ان ممالک کی مرکزی حکومتیں بھی کمزور ہیں۔ سونے پر سہاگہ چین کی قیادت میں عالمی سطح پر مغربی کے خلاف بلاک تشکیل پارہی ہے۔ چین اور روس اپنی سرحدوں سے نکل کر مغربی نظام کو چیلنج کررہے ہیں۔

عالمی نظام کی تبدیلی کے دور میں موجودہ نظام سے ناراض روس اور چین جیسی بڑی طاقتیں اپنا قد بڑھا رہی ہیں۔ روس نائیجیر اور مالی میں نفوذ پیدا کررہا ہے۔ مشرقی افریقہ سے مرکزی خطے تک کی پٹی پر روس کا اثر بڑھ رہا ہے۔ ان حالات میں افریقی ممالک چین اور روس کے ساتھ شریک ہونے کے لئے خود کو آمادہ کررہے ہیں۔ چین بھی سفارتی اور اقتصادی منصوبوں کے ذریعے ان ممالک کے ساتھ روابط بڑھا رہا ہے۔ یوکرین میں روسی آپریشن سے پہلے چین کے ساتھ اقتصادی تعلقات اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کے حوالے سے یورپ اور فرانس کی امریکہ کے ساتھ مخالفت نے یورپ کے دفاع کے لیے فوج بنانے کی ضرورت کو کھل کر ثابت کیا۔ اس کے علاوہ، یورپ نے چین کی برتری کو ایک حقیقت کے طور پر قبول کیا ہے۔

نائیجیر کو ایک ملک کا نام دینا مشکل ہے کیونکہ اندرونی طور پر شکست و ریخت کا شکار ہے لہذا ملک کے اندر موجود قدرتی ذخائر کو تحفظ دینے کی صلاحیت نہیں ہے۔ یہ ملک فرانس کی جانب سے ہونے والی چوری کو روکنے کی قدرت نہیں رکھتا ہے۔

مغربی افریقہ کے فرانس کے ساتھ تعلقات ان تین ممالک کے فوجی حکمرانوں کے رویے پر منحصر ہیں۔ اب تک تینوں ممالک نے اس حوالے سے کسی قسم کی لچک نہیں دکھائی ہے تاہم ملک پر حاکم لیبرالیزم نظام کے خلاف بھی اب تک کوئی پالیسی سامنے نہیں آئی ہے۔ جوانوں پر مشتمل کثیر آبادی والے ان ممالک میں اصلاحات کے امکانات روشن ہیں۔

خطے میں پہلے سے موجود اتحاد ختم ہوکر جدید اتحاد سامنے آرہا ہے جس کے بعد جدید طریقے کے مطابق استحکام کے راستے وجود میں آئیں گے۔ الجزائر جیسا ہمسایہ ملک بیرونی فوجی مداخلت کی مخالفت کرتا ہے اور ہمسایہ ممالک میں تبدیلی کے بعد زمینی حقائق کے مطابق عمل کرنے کا ترجیح دیتا ہے۔ ان امور کی وجہ سے جدید اتحاد کی تشکیل عین ممکن ہے جس کا کئی سالوں سے انتظار کیا جارہا تھا۔