مہر خبررساں ایجنسی کے نامہ نگار کی رپورٹ کے مطابق، مدینے میں آخری لمحات گزاررہے ہیں۔ دل جدائی کے غم میں تڑپ رہا ہے لیکن اب بھی مایہ سکون موجود ہے کہ دل کھول کر مدینہ کی زیارت کرسکتے ہیں۔
ایک مرتبہ ذہن میں جدائی کے اوقات آتے ہیں تو یہ خوشیاں ختم ہوجاتی ہیں۔ عرفات، منا اور مدینہ کے مناظر کی جدائی میں آنسو نہ بہائے تو کیا کرے۔
جب ذاکر کے لبوں پر یہ جملہ جاری ہوتا ہے کہ شاہد دوبارہ مدینے کی زیارت نصیب نہ ہو تو دل دھڑکنے لگتا ہے؛ سانس رک جاتی ہے اور گلا جواب دے جاتا ہے۔ آسمان کی طرف رخ کرکے زیر لب خدا سے مناجات کرتا ہے کہ خدایا! ایسا نہ ہو!!!
پھر حقیقت کی دنیا میں واپس آکر سوچنے لگتا ہے کہ شاید دوبارہ واپس آنا نصیب نہ ہو تو خدا سے یہی کہنے لگتا ہے کہ خدایا! تیرے سوا میرا کون ہے؟
خدا سے دوبارہ دعا مانگنے لگتا ہے کہ عرفات اور منا کو دوبارہ دیکھنا نصیب ہو، مسجد النبی میں نماز پڑھنے کی توفیق دوبارہ شامل حال ہوجائے، ایک مرتبہ پھر آنکھیں روضہ نبی و بقیع کی زیارت سے ٹھنڈی ہوجائیں۔
سوچتا ہے کہ شاید صرف اس کا یہ حال ہے لیکن جب دائیں اور بائیں جانب نظر دوڑاتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ سب کا یہی حال ہے۔ ہر کسی کی آنکھوں میں آنسو اور خدا سے دعا کرتا ہے کہ خدایا! مجھے خالی ہاتھ واپس نہ کردے!
ایک مرتبہ شک و تردید کی حالت پورے وجود کو گھیر لیتی ہے اور سوچنے لگتا ہے کہ خدا نہ کرے کہ یہ اعمال درگاہ الہی میں قبول نہ ہو جائیں اور خالی ہاتھ واپس پلٹنا پڑے، خدا نہ کرے،،،، خدا نہ کرے،،،،
خدایا! آپ کے لطف و کرم کی مجھے امید ہے،،، آپ کے سوا میرا کوئی نہیں،،،، میرے کم اور ناقص عمل کو قبول کر،،، شدت غم کی وجہ سے گلا ساتھ نہیں دیتا۔
دعا خوان جب دعا پڑھتے پڑھتے رک جاتا ہے تو فضا میں چاروں طرف گریہ کی صدا پھیل جاتی ہے۔ دل کی گہرائیوں سے نکلنے والی صدائیں محفل کو مزید پرغم بنادیتی ہیں۔
دعائے کمیل کے یہ لمحات زندگی میں یادگار بن جاتے ہیں۔ یہ لمحات سفر حج کو مزید یادگار بناتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ پورے حج کے دوران اللہ کو بھول بیٹھا تھا اور آج دل کھول کر یاد میں آنسو بہا رہا ہو۔ اللہ سے دل کھول کر مناجات کرکے مدینے کی جدائی کا غم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
اللہ سے امید تو رکھتا ہے کہ دوبارہ یہ لمحات دیکھنے کو ملیں لیکن دل کے اندر سے آواز آتی ہے کہ ان مناظر کا آخری دیدار ہورہا ہے۔ ذاکر کے الفاظ بھی ان خیالات کی عکاسی کرتے ہیں۔ اتنے میں واقعہ کربلا کی روداد سنائی جاتی ہے اور مظلوم کربلا امام حسین علیہ السلام اور حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی آخری ملاقات کا حال سنایا جاتا ہے۔ گریہ و بکا بلند ہوتی ہے،،، آنسو آنکھوں سے جاری،،،
ایسا لگتا ہے کہ ساری دنیا کا غم اس پر سوار ہوا ہے۔ اسی حالت میں رہے تو ساری رات آنسو بہائے لیکن دعائے خیر کے آخری جملے کے ساتھ گریہ و بکا آہستہ کم ہونے لگتی ہے۔
جب ذاکر دعا کرتا ہے کہ خدایا! اس حج کو ہماری زندگی کا آخری حج قرار نہ دے تو آمین کہنے کا انداز دوسرے دعائیہ جملوں سے بہت منفرد، پرغم اور پرکیفیت ہوتا ہے۔