مہر خبررساں ایجنسی-صوبائی ڈیسک؛ کاشان میں نماز بلیوارڈ سے پہلے گاڑی سے مجھے اتار دیا گیا۔ دور سے رنگین نظارے کرسکتے تھے۔ اگر آپ گہری سانس لیں تو اسفند کی خوشبو بھی سونگھ سکتے تھے۔ لوگ بڑے اور چھوٹے خاندانی گروہوں میں خیابان کی طرف جارہے تھے۔ میں جمعہ کی شام چھ بجے کے قریب سڑک پر آنے والے لوگوں کے ساتھ اپنے مولا حضرت علی علیہ السلام کی محبت کے لیے میں بھی چل پڑا۔
نماز بلیوارڈ پر لوگوں کا بڑا ہجوم تھا۔ سڑک کی ایک جانب جانے اور دوسری جانب کو آنے والوں کے لئے مخصوص کیا گیا تھا۔ مختلف کیمپ لگے ہوئے تھے۔ تاحد نگاہ لوگوں کا ہجوم نظر آرہا تھا۔ لوگوں کی اپنے گھر والوں کے ساتھ کثیر تعداد میں آمد نے مجھے حیرت زدہ کردیا تھا۔ جوان اور بوڑھے جوڑے ہاتھوں میں ہاتھ دئے ساتھ چل رہے تھے۔
بعض کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو نکل رہے تھے۔ ہر کسی کی آنکھیں امید سے لبریز تھیں۔
منقبت اور ترانوں کا طرف شور تھا۔ بچے گروہوں کی صورت میں منقبت پڑھنے کے لئے صفوں میں انتظار کررہے تھے۔ بچے اور بچیاں عوام کے ہجوم کے سامنے کھڑے ہوکر منقبت خوانی کررہے تھے۔ منقبت پڑھنے کے خواہشمند جوانوں کے لئے ایک نادر موقع ملا تھا۔
ماں باپ اپنے بچوں کو ان کے اساتذہ کے ساتھ منقبت پڑھتے دیکھ کر خوشی سے جھوم رہے تھے۔
اگر سوال کیا جائے کہ اس دسترخوان پر کس گروہ کو مہمان کا درجہ دیا گیا تو جواب واضح تھا کہ خصوصی بچے اس دن پر غدیر کی تقریبات کے مہمانان خصوصی تھے۔
کئی کیمپوں میں بچوں کے لئے ڈرائنگ کے سامان فراہم کئے گئے تھے۔ پیدل چل کر تھکنے کی صورت میں استراحت کے لئے کیمپوں میں اعلی انتظام کیا گیا تھا۔ کیمپوں میں موجود اعلی قسم کی کرسیاں تھکاوٹ دور کا بہترین وسیلہ تھیں۔
ننھے بچے اپنے والدین کے کندھوں پر سوار ہوکر مجمع کا نظارہ کررہے تھے۔ بعض والدین ٹرالیوں میں بچے رکھ مارچ میں شریک تھے۔
گلاب کا پھول اور خوشبو کاشان کی پہچان ہے۔ آج کاشان نے ثابت کیا کہ گلاب اور خوشبو کے علاوہ یہاں اعلی قسم کے مشک اور دارچینی بھی موجود ہیں۔
کھانے اور مشروبات کے ٹیبلز مختلف اقسام کی ڈشوں سے سجے ہوئے تھے۔ گلاب کا شربت پینے کے بعد گلاب کے لئے معروف گاوں قمصر کی یاد تازہ ہوگئی۔
اذان کی صدا بلند ہوتے ہی مجمع ہم صدا ہوکر اذان کے جملوں کو تکرار کرنے لگا۔ جیسے ہی ’’اشہد ان علیا ولی اللہ‘‘ کی آواز آئی سب جھوم اٹھے اور حضرت علی علیہ السلام کے شیعہ ہونے پر سر فخر سے بلند کرنے لگے۔ اذان ختم ہوتے ہی سب مسجدوں اور نمازخانوں میں جمع ہوکر نماز پڑھنے میں مصروف ہوگئے۔ اول وقت میں نماز کی ادائیگی شیعہ علی کی پہچان ہے۔ کیمپ خالی ہوگئے۔ سڑکیں سنسان ہوگئیں۔ کاشان کے مومنین کی اول وقت میں نماز پڑھنے کی اچھی عادت سے خوشگوار حیرت ہوئی۔
ایران کے دوسرے شہروں کی طرح کاشان میں بھی کھانے کے مختلف اقسام حاضر کئے گئے تھے۔ دیسی اور جدید ڈشیں دسترخوان کی زینت بنی ہوئی تھیں۔ تربوز اور خربوز سمیت مختلف اقسام کے میوہ جات جشن کے شرکاء کے تواضع کے لئے پیش کیا جارہا تھا۔
نماز کے بعد کھانے کا دسترخوان رونق پکڑنے لگا۔ ہیمبرگر، فلافل، گوشت اور دیگر انواع کے کھانے دسترخوان پر سجائے جانے لگے۔ سب سے اچھی بات یہ تھی کہ شرکاء ان کھانوں کو نیاز سمجھ کر شفا کے لئے تناول کررہے تھے۔
ان سطور کو جب رشتہ تحریر میں لارہا ہوں تو یقینا اکثر لوگ جشن کے بعد اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہوں گے۔ کیمپوں میں موجود رضاکار دن بھر خدمات انجام دینے کے بعد تھک کر استراحت کررہے ہوں گے لیکن آج کا یہ جشن اور واقعہ عرصے تک ذہنوں میں زندہ رہے گا اور ایک دن یاد کرتے ہوئے ایک دوسرے سے کہیں گے کہ ’’ وہ وقت یاد ہے جب کاشان میں نماز بلیوارڈ پر جشن غدیر برپا ہوا تھا۔۔۔ کیا ہی اچھا دن گزرا تھا‘‘