مہر خبررساں ایجنسی نے رائٹرز کے حوالے سے بتایا ہے کہ جرمن وزیر اعظم اولاف شولٹز نے برسلز میں یورپی یونین کے نمائندوں کے ساتھ ملاقات میں کہا ہے کہ یورپی یونین چین کے ساتھ "اسٹریٹیجک تعلقات" منقطع کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
شولٹز نے کہا کہ یورپی کمپنیوں اور معیشت کو تنوع بخشنے میں کئی سال لگیں گے، لیکن چین کے ساتھ یونین کے رکن ممالک کا اقتصادی تعاون جاری رہے گا۔
جرمن چانسلر نے کہا کہ چین کے ساتھ خاص طور پر فوڈ سیکیورٹی اور موسمیاتی پالیسیوں جیسے مسائل پر تعاون جاری رہنا چاہیے۔
شولٹز نے کہا ہے کہ چین سے اسٹریٹجک وابستگیوں کو منقطع کرنے کا مطلب خطرے کو کم کرنا ہے تعلقات منقطع کرنا نہیں۔
یورپی یونین کمیشن نے حال ہی میں چین جیسے ممالک کو اعلیٰ ٹیکنالوجیز تک رسائی دینے اور انہیں فوجی مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے روکنے کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاری اور برآمدات کی کنٹرولنگ کی جانچ جیسے اقدامات اٹھائے ہیں۔
اس سے قبل انگریزی اخبار فنانشل ٹائمز نے خبری دی تھی کہ یورپی یونین چین سے اقتصادی علیحدگی کی خواہاں ہے لیکن اس مقصد کے حصول کے لیے ابھی تک اس کے پاس مناسب ذرائع اور حکمت عملی نہیں ہے۔
مذکور اخبار کے مطابق جس طرح واشنگٹن اپنی معیشت کو بیجنگ سے الگ کرنے کے لیے اپنے وفاقی اختیارات کا استعمال کرنا چاہتا ہے اسی طرح یورپی یونین چین کے بارے میں امریکہ کے ساتھ مشترکہ بنیاد تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
یورپی یونین اس معاشی فلسفے پر عمل کرنے کے درپے ہے جس کا اظہار یورپی کمیشن کی صدر ارسولا وان ڈیر لیین نے گزشتہ ماہ ڈیووس کانفرنس میں کیا تھا، جس نے چین کی معیشت سے الگ ہونے کی کوشش کے خطرے سے بچنے پر زور دیا تھا۔
فنانشل ٹائمز کے مطابق، یورپی یونین کے پاس اقتصادی کنٹرول قائم کرنے کا اپنا میکنزم موجود ہے لیکن یونین پر واشنگٹن کا سیاسی اثر و رسوخ اس کے رکن ممالک کے اجتماعی فیصلے کو کمزور کر سکتا ہے جس سے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو مرضی کی پالیسیاں وضع کرنے کی اجازت مل جائے گی۔
اخبار کی رپورٹ کے مطابق یورپی یونین اس وقت چین سے اقتصادی علیحدگی کے لیے تیار نہیں ہے کیونکہ برسلز اور رکن ممالک کو ایک ایسا منصوبہ تیار کرنے کے لیے سخت محنت کرنی پڑے گی جو اس علیحدگی کے خطرات اور نتائج کو کم کرے۔"
واضح رہے کہ یورپی ممالک نے بیجنگ سے فوری اقتصادی علیحدگی کے عمل کی مخالفت کی ہے، جرمنی نے بھی بتدریج علیحدگی پر زور دیا ہے کیونکہ یورپ کے چینی مارکیٹ سے اچانک باہر نکلنے سے اس کی طاقتور معیشت سے ملازمتیں ختم ہو جائیں گی۔
یورپی یونین کی معاشی پالیسی میں یہ تبدیلی اس وقت آئی جب چین 120 سے زائد ممالک کے تجارتی شراکت دار کے طور پر ابھرا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی تحقیقاتی مرکز "ولسن" نے اعلان کیا ہے کہ چین اس وقت یورپی یونین کا سب سے بڑا غیر ملکی تجارتی شراکت دار ہے۔
اس کے علاوہ، ایک ماہ سے بھی کم عرصہ قبل، یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے عہدیدار جوزف بوریل نے اپنی ایک یاد داشت میں "یورپی یونین چین کے بارے میں اپنے موقف کو اقدار، اقتصادی اور تزویراتی سلامتی کے میدان میں تبدیل کرے گا" کے عنوان سے جائزہ لیتے ہوئے لکھا تھا کہ "چین میں قوم پرستی کی نشوونما، امریکہ اور چین کی بڑھتی رقابت اور بیجنگ کے ایک جغرافیائی سیاسی قوت کے طور پر ابھرنے نے یورپی یونین کے لئے ایک چیلینج پیدا کر دیا ہے اور یورپی یونین چین کے ساتھ بیک وقت ایک شراکت دار اور حریف کے طور پر تعلقات بنائے گی۔ اب یورپی یونین کے لیے اہم سیاسی چیلنج چین کے ساتھ نمٹنے کی پالیسی کا ہے جو روس سے نمٹنے زیادہ پیچیدہ ہے۔
یقیناً، روس اور چین کے ساتھ یورپی یونین کے سیاسی اور اقتصادی تعلقات کی نوعیت میں گہرے اختلافات ہیں اور چین روس کے برعکس ایک حقیقی نظام مند کھلاڑی ہے، جو عالمی معیشت کے 20 فیصد تک پہنچ رہا ہے اور بڑھ رہا ہے، جبکہ روس تقریباً 2 فیصد کی نمائندگی کرتا ہے اور زوال پذیر ہے۔