مہر خبررساں ایجنسی_ سیاسی ڈیسک؛ جب شاہی حکومت نے امام خمینی کو گرفتار کیا تو قم، تہران اور ورامین جیسے شہروں میں عوام کا سمندر سڑکوں پر نکل آیا۔ سیکورٹی فورسز کے ساتھ تصادم کے نتیجے میں متعدد شہید اور زخمی ہوگئے۔
امام خمینی مدرسہ فیضیہ میں شاہ کے خلاف تقریر پر گرفتار کیا گیا تھا۔ امام نے رضا پہلوی کی حکومت کو یزیدی حکومت سے تشبیہ دیتے ہوئے سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ عوام کے قتل عام کی وجہ سے امام خمینی نے اس دن کو یوم سوگ کے طور پر منانے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد 15 خرداد کو ایران میں عام تعطیل کی جاتی ہے۔
15 خرداد کا واقعہ کن حالات میں رونما ہوا۔ شاہ کی جانب سے عوام کا استحصال عروج پر تھا۔ ایک بل پاس کرکے ایران میں قائم فضا کو اپنے حق میں موڑنا چاہتے تھے۔ علماء نے عوام کو حالات سے آگاہ کرنا شروع کیا تھا۔ وزیراعظم مصدق نے ثابت کیا تھا کہ شاہ ناقابل شکست نہیں ہے۔ قوم پرست بھی شاہ سے زیادہ خوش نہیں تھے کیونکہ انہوں نے ملک کو بیگانوں کے حوالے کردیا تھا۔
تاریخی امور کے ماہر محمد رضا شاہ حسینی کے مطابق شاہ خودپسند آدمی ہونے کی وجہ سے کسی پر اعتبار نہیں کرتا تھا۔ ملکہ کو بھی اپنی بیماری سے بے خبر رکھا تھا کیونکہ یہ خبر منظر عام پر آنے کی وجہ سے حکومت کو خطرہ محسوس کررہا تھا۔ شاہ ملک کے حالات سے بے خبر تھا اسی لئے امام خمینی کو گرفتار کرنے کی غلطی کا مرتکب ہوا۔ شاہ کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ امام خمینی کی گرفتاری کے بعد عوام ردعمل اتنا شدید ہوگا۔
عوام کی اکثریت نے امام کی تصویر بھی نہیں دیکھی تھی لیکن ان کا نفوذ بہت زیادہ تھا۔ 15 خرداد کے بارے میں ہمین کماحقہ شناخت نہیں ہے۔
امام خمینی کے پاس میڈیا اور دوسرے ذرائع نہیں تھے بلکہ انہوں نے اپنی شخصیت کی بناپر عوام کے دلوں کو مسخر کیا تھا۔ ایک مرتبہ ممبر پر بیٹھ کر تقریر کرتے اور حکومت اور پارلیمنٹ کا کاروائیوں کو بے اثر کرکے رکھ دیتے تھے۔ ان حالات میں قوم پرستوں کا کردار بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ انہوں نے شاہ کی حکومت کے خلاف جدوجہد کی۔
لیکن ان کے امام خمینی کے درمیان بنیادی فرق تھا کہ قوم پرست حکومت حاصل کرنے کی خواہش رکھتے تھے جبکہ امام کا ہدف اسلام کو نافذ کرنا تھا اسی لئے عوام نے امام خمینی کے پیچھے چلنا شروع کردیا۔ امام خمینی نے عاشورا کے دن سیکورٹی الرٹ ہونے کے باوجود شاہ کے خلاف تندو تیز تقریر کی۔
15 خرداد کو عوام نے بسیج ہوکر بڑی تعداد میں شاہی حکومت کے خلاف احتجاج کیا یہی 15 خرداد کے اہم ترین اثرات میں سے ہے۔ لوگوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک مرجع تقلید اتنی کثیر تعداد میں عوام کو حکومت کے خلاف سڑکوں پر لاسکتا ہے اور لوگوں کو شاہ کے خلاف مبارزہ پر آمادہ کرسکتا ہے۔
15 خرداد کو عوام کو یقین ہوگیا کہ شاہ کی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔ جب امام نے کہا کہ میرے سپاہی ابھی ماوں کی گود میں ہیں تو کسی کو یقین نہیں ہوا جب 22 بہمن 357 آگیا تو یہ حقیقت کھل گئی۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امام غیبی الہامات رکھتے تھے۔
15 خرداد تاریخ میں امر ہونے کی ایک وجہ اس تحریک کا بیرونی طاقتوں کے ساتھ وابستہ نہ ہونا ہے۔ اس سے پہلے وجود میں آنے والی تحریکیں مشرقی یا مغربی بلاک سے وابستہ تھیں لیکن امام خمینی کی قیادت میں عوام نے دونوں بلاکوں سے وابستہ ہونے کے بجائے خدا اور عوام کے لئے قدم اٹھایا اسی وجہ سے 15 خرداد تاریخ کا حصہ بن گیا۔
اس دن کے تاریخی ہونے کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ دوسری جماعتیں اقتدار کے لئے جدوجہد کررہی تھیں چنانچہ انقلاب کی کامیابی کے بعد واضح ہوگیا۔ 15 خرداد کا قیام حکومت یا کابینہ میں وزارت کا عہدہ لینے کے لئے رونما نہیں ہوا تھا بلکہ اس قیام کا مقصد الہی تھا۔
15 خرداد کا قیام بیرونی طاقتوں سے وابستہ نہیں تھا بلکہ ان کی بے جا مداخلت کے خلاف قیام تھا۔ اس قیام کے ساتھ مذہبی قیادت اور مرجعیت نے دنیا پر واضح کیا کہ علماء کی قیادت میں عوام شاہ کے خلاف جدوجہد کے نئے مرحلے میں داخل ہوگئے ہیں۔
15 خرداد کے واقعے سے عوام کو یقین ہوگیا کہ شاہی حکومت کے خلاف قیام اور کامیابی ممکن ہے۔ امام خمینی نے اپنی تقاریر میں عوام کو کامیابی کی بشارت دی تھی اسی لئے شاہی حکومت نے امام خمینی کو گرفتار کرنے کی غلطی کی۔ امام خمینی کی گرفتاری کے بعد لوگوں میں غم و غصے کی نئی لہر دوڑ گئی۔ عوامی غصے کے اس سمندر میں بالاخر شاہی حکومت غرق ہوگئی۔
15 خرداد کو امام خمینی نے اپنے قیام کے ذریعے علماء اور روحانیت کو بھی بیدار کیا۔ اس سے پہلے علماء سیاسی فکر رکھتے تھے لیکن قیام کرنے پر تیار نہیں تھے۔ 15 خرداد کے بعد علماء نے بھی کھل کر میدان میں کردار ادا کیا۔ اسی قیام کے باعث عوام کے اندر علماء کی قیادت پر آمادگی کی روح پیدا ہوگئی۔ اس دن کے بعد مساجد شاہی حکومت کے خلاف محاذ کے طور پر استعمال ہونے لگیں۔