مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کے صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی نے شام کے اپنے دو روزہ سرکاری دورے کے موقع پر آج جمعرات کی صبح اسلامی مزاحمت کے رہنماوں اور کمانڈروں کے ایک گروپ اور فلسطینی مفکرین کے ساتھ الگ الگ ملاقاتوں میں تاکید کی کہ مسئلہ فلسطین اور بیت المقدس کی آزادی آج عالم اسلام کا اہم ترین مسئلہ ہے جسے فراموش نہیں کرنا چاہیے۔
صدر رئیسی نے مزید کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران ہمیشہ اپنی خارجہ پالیسی میں مسئلہ فلسطین کو ترجیح دیتا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ عالم اسلام کی تمام پالیسیز اسی مسئلے کے تحت متعین ہونا چاہئے۔
انہوں نے دشمن کی طرف سے پوری قوت کے ساتھ فلسطینیوں پر حملوں کا جواب دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ وہ فلسطین کے پامال شدہ حقوق اور القدس شریف کی آزادی کے حصول کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لائیں۔
آیت اللہ رئیسی نے صہیونی حکومت کی بقاء کے لئے دشمن کی نفسیاتی جنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہائبرڈ جنگ کا مقصد فسلطینیوں کو یہ باور کرانا ہے کہ ان کی قسمت کا فیصلہ صہیونی حکومت کے پاس ہے۔ اسرائیل کا وجود ناقابل تردید اور مسلمانوں کو صہیونی حکومت تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔
انہوں نے کیمپ ڈیوڈ، شرم الشیخ اور اوسلو میں ہونے والے معاہدوں کو صہیونی حکومت کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی سازش قرار دیا اور کہا کہ دشمن نے بعض ممالک کو اسرائیل تسلیم کرنے پر آمادہ کرلیا ہے لیکن اس کے نتیجے میں فلسطینی کی حق تلفی اور ان پر مظالم میں اضافہ ہی ہوا ہے۔
صدر رئیسی نے مسجد اقصیٰ پر حملے اور معتکفین اور روزہ داروں کے قتل کے حوالے سے صیہونی حکومت کے حالیہ جرائم کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ اب تعلقات کو معمول پر لانے کے حامیوں کو اپنے ملک کے عوام کی جانب سے احتجاج اور سوالات کا سامنا ہے اور اس غاصب حکومت کے خلاف مزاحمت کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج یہ ثابت ہوچکا ہے کہ اسرائیل کا مقابلہ کرنے اور عالم اسلام کی ترقی کا واحد راستہ مزاحمت ہی ہے۔
ایرانی صدر نے اسلامی دنیا میں امریکہ اور صیہونی حکومت کی ناکامی کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ عالم اسلام میں آج پہلے سے زیادہ اتحاد و اتفاق ہے۔ صیہونی حکومت کی شکست اور القدس کی آزادی اور فلسطینیوں کی خودمختاری کے لیے مزاحمتی قوتوں، خطے اور عالم اسلام کا ہم آہنگی ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطین کا واحد حل فلسطینیوں کی مرضی پر مبنی حکومت ہے اور اگر مغرب والے جمہوریت کا دعویٰ کرتے ہیں تو انہیں فلسطینی عوام کے رائے کو قبول کرنا چاہیے اور اس کے نتائج پر کاربند رہنا چاہیے۔