مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: حالیہ سالوں میں مسجد اقصی اور القدس مسئلہ فلسطین کا مرکزی محور بن گیا ہے۔ انتہاپسند صہیونی اور آرتھوڈوکس یہودی مسجد اقصی میں مسلسل مداخلت کے ذریعے اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کے خواہش مند ہیں تاکہ مسجد اقصی کو یہودی ملکیت میں لانے کے بعد منہدم کرسکیں۔
عید "پسح" یا "فصح"
ہر سال یہودی مصری فرعون کے ظلم سے نجات ملنے کی یاد میں پانچ اپریل سے تیرہ اپریل تک عید مناتے ہیں۔ اس سال یہ عید ماہ رمضان میں آئی ہے اس لئے کئی مہینے پہلے سے حالات خراب ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا۔ ماہ رمضان کے دوسرے جمعہ کو ڈھائی لاکھ سے زائد نمازیوں کی مسجد اقصی میں شرکت کے بعد صہیونی اخبار ہارٹز نے اس اجتماع کو صہیونی اداروں کے لئے چیلنج قرار دیا تھا۔ اخبار کے مطابق مسلمانوں اور صہیونیوں کے درمیان ممکنہ تصادم کے پیش نظر صہیونی سیکورٹی فورسز کو الرٹ کردیا گیا تھا۔ صہیونی وزیر داخلہ نے بھی عید پسح کے موقع پر حالات خراب ہونے کا احتمال ظاہر کیا تھا۔
گذشتہ سال بھی صہیونی عید پسح کے موقع پر قربانی کا رسم ادا کرنے کے لئے مسجد اقصی کے صحن میں داخل ہونا چاہتے تھے لیکن مسلمانوں نے ان کی کوشش ناکام بنادی تھی۔ یہودی بنیادپرست جماعت نے عید پسح کے موقع پر مسجد کے صحن میں قربانی کرنے کا اعلان کیا تھا۔ فلسطینی مزاحمتی تنظیموں نے یہودی جماعت کے اعلان کی شدید مذمت کی تھی اور فلسطینی تنظیم حماس نے ہر قیمت پر مزاحمت کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ اس کے بعد یہودیوں کو مسجد کے صحن میں داخلے کی جرائت نہ ہوسکی تھی۔ اس سال صہیونی تنظیموں نے دوبارہ کوششیں شروع کی ہیں۔ صہیونی ٹی وی چینل 7 کے مطابق شدت پسند تنطیم نے مسجد اقصی کے صحن میں قربانی کرنے پر انعام کا اعلان بھی کیا ہے۔ اعلان کے مطابق قربانی کو مسجد اقصی کے اندر تک لے جانے پر 500 شکل (اسرائیلی کرنسی) اور مسجد کے اندر جانور کو ذبح کرنے پر 1200 شکل انعام دیا جائے گا۔ بدھ کے دن ہونے والے رسومات میں صہیونی اجتماعی طور پر مسجد اقصی میں داخل ہونے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ 15 یہودی مذہبی رہنماؤں نے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کو خط لکھ کر عید کے موقع پر مسجد اقصی کے اندر قربانی کی اجازت دینے کی درخواست کی ہے۔
مسجد اقصی پر قبضے کی سلسلہ وار کوشش 1967 کی جنگ کے بعد اس وقت کے صہیونی وزیر جنگ موشے دایان نے فلسطینی محکمہ اوقاف کو حرم شریف کے انتظامی امور دینے کا فیصلہ کیا۔ مقبوضہ علاقوں کے یہودی بنیاد پرست مذہبی رہنماؤں نے شرعی حکم جاری کیا اور معبد دوم کو تباہ کرنے کے بعد اس مقام کو نجاست قرار دیا اور یہودیوں کو داخلے سے منع کیا۔ 1973 میں شلومو گورین اشکنازی یہودیوں کے ربی یعنی خاخام بن گئے انہوں نے مسجد اقصی کے بارے میں یہودیوں کے سخت رویے کو بدل دیا اور کہا کہ قدیمی معبد کے بعض حصوں میں یہودی جاکر زیارت اور نماز پڑھ سکتے ہیں۔ 1980 کی دہائی میں حکومت میں شامل اعلی مذہبی رہنماوں نے اس نظریے کو قبول کرنا شروع کیا اور ایک سفاردی خاخام کی مخالفت کے باوجود مسجد اقصی کے پیچھے عبادت گاہ تعمیر کرنے کی سفارش کی۔ 1986 میں گورین نے 70 خاخاموں کو دعوت دی اور یہودیوں کو حرم شریف کے اکثر حصوں میں داخلے اور نماز پڑھنے کی اجازت دی۔
1990 میں ایک خاخام نے اپنے پیروکاروں کو مسجد کے اندر جشن منانے کا حکم دیا۔ 1994 میں گورین نے وزیراعظم اسحاق رابن کو لکھا کہ ہم مغربی دیوار کو یہودیوں کی عبادتگاہ کے طور پر قبضہ کرنے کا دعوی نہیں کرسکتے ہیں۔ یہودیوں کو عبادت کی پہاڑی کے پورے اطراف میں نماز پڑھنے کی اجازت دی جائے۔ 1997 میں یوشعی خاخاموں کی کمیٹی نے قرار دیا کہ حرم میں نماز پڑھنے کے معتقد یہودی اپنے عقیدے کے مطابق نماز پڑھ سکتے ہیں۔ اس کے بعد اعلی عدلیہ اور حکومتی حکام نے حکومت اور خاخام اعلی سے درخواست کی کہ حرم میں یہودیوں کو نماز پڑھنے پر عائد پابندی کو اٹھا لیا جائے۔ 2000 میں لیکوڈ پارٹی کے سربراہ ایریل شیرون کے حرم شریف میں پولیس کی بھاری نفری کے ساتھ داخلے کے بعد کوششیں عروج پر پہنچ گئیں۔ فلسطینیوں نے اس موقع پر شدید احتجاج کیا اور چار فلسطینی شہید جب کہ دسیوں زخمی ہوگئے۔ ایریل شیرون کے اس سفر کے بعد فلسطین میں دوسرا انتفاضہ شروع ہوا اور دو ہفتوں کے دوران 70 فلسطینی شہید ہوگئے۔
مسجد کے اندرونی معاملات میں مداخلت
2003 سے پہلے صہیونی حکومت تین سے زیادہ یہودیوں کو ایک ساتھ مسجد میں داخلے اور زیارت کی اجازت نہیں دیتی تھی لیکن اس کے بعد یہ تعداد پچاس تک پہنچ گئی ہے اور اس فیصلے کے بارے میں مسلمان محکمہ اوقاف کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔ 2009 میں فلسطینیوں کے خلاف نسل پرستی پر مبنی خیالات کا اظہار کرنے کے بعد داخلی سلامتی کے انتہاپسند وزیر اسحاق اہارنووچ نے دوبارہ حرم کا دورہ کیا۔ اس کے بعد فلسطینیوں کے خلاف صہیونیوں کی سازشیں جاری رہیں اور 2015 صہیونی حکومت نے فلسطینیوں کو حرم میں داخلے سے روکنا شروع کیا تاکہ یہودی آسانی کے ساتھ حرم میں داخل ہوسکیں۔
آج بھی یہودیوں کا حرم شریف میں داخلہ یہودیوں کی مذہبی محافل میں زیربحث رہتا ہے۔ گذشتہ سال نتن یاہو نے قدامت پرست سیاسی جماعت کے سربراہ یہودی خاخام سے حکومتی اتحاد میں شامل ہونے کے عوض میں یہودیوں کو وقتی طور پر حرم میں داخل ہونے سے روکنے کا معاہدہ کیا تھا۔
خلاصہ: مسجد اقصی کے صحن میں قربانی کی رسومات کی ادائیگی مسجد کو یہودیوں کے قبضے میں لینے کی سلسلہ وار کوششوں کا حصہ ہے۔ بدقسمتی سے گذشتہ سال کے دوران مختلف مواقع پر مسجد کے صحن میں یہودیوں کی بے جا مداخلت بڑھ گئی ہے جوکہ ایک تشویشناک امر ہے۔