مہر خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، سعودی انٹیلی جنس کے سابق سربراہ ترکی الفیصل نے ایک انٹرویو کے دوران فرانس 24 کو بتایا کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان معاہدہ یمن سے لے کر لبنان اور شام تک خطے میں ہونے والی پیش رفت پر اثرات مرتب کرے گا۔
ترکی الفیصل نے کہا کہ چین ایران اور سعودی عرب کے درمیان معاہدے کا ضامن ہے اور اس معاہدے کا مطلب سعودی عرب کا امریکہ سے دور ہونا نہیں ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ معاہدہ اسرائیل کے لیے قابل قبول نہیں اور ریاض اور تل ابیب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کا معاملہ کس صورت آگے بڑھے گا تو الفیصل نے کہا کہ ان کے ملک نے اسرائیلی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے واضح شرائط رکھی ہیں، جن میں ایک خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام، جس کا مرکز القدس ہو اور فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی شامل ہے۔
انہوں نے حالیہ تباہ کن زلزلے کے دوران شام کے لیے سعودی عرب کی امداد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امداد بھیجنے کے سلسلے میں سعودی اور شامی حکام کے درمیان رابطے ہوئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ شاید یہ اقدام شام کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے کی طرف بڑھنے کے دوسرے اقدامات کا آغاز ہے۔