مہر خبررساں ایجنسی نے پاکستانی میڈیا سے نقل کیاہےکہ پولیس لائنز خودکش دھماکے پر وزیراعظم کی زیر صدارت گورنر ہاؤس پشاور میں ایپکس کمیٹی کا اجلاس ہوا، جس میں آرمی چیف، چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ، وزیراعظم آزاد کشمیر کے علاوہ وفاقی وزرا اور قومی سیاسی قائدین نے شرکت کی، تاہم اجلاس میں تحریک انصاف کی جانب سے کوئی نمائندی شریک نہیں ہوا۔
وزیراعظم نے شرکا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اجلاس بلانے کا مقصد 30 جنوری کو ہونے والے پشاور دھماکے کے متاثرین لواحقین کے ساتھ اظہار ہمدردی کرنا ہے۔انہوں نے کہا کہ پشاور دھماکے کا حملہ آور چیک پوسٹ سے گزر کر مسجد داخل ہوا۔ پوری قوم پشاو ر دھماکے پر اشک بار ہے۔ قوم سوال کررہی ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے بعد یہ واقعہ کیسے رونما ہوا؟۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پشاور واقعے کے بعد بےجا تنقید اورالزامات کی مذمت کرتے ہیں۔ الزامات اور تنقید پشاور واقعے کے بعد مناسب نہیں تھے ۔ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ قوم دہشت گردی جیسے ناسور سے نمٹنے کے طریقے پر سوچ رہی ہے ۔ یہ کہنا کہ پشاور واقعہ ڈرون حملے سے ہو ایہ نامناسب تھا۔انہوں نے کہا کہ حکومت دہشت گردی کے خلاف تمام وسائل بروئے کا ر لائے گی۔ وفاق ،صوبے ،سیاسی جماعتیں اور سب مل کردہشت گردوں کامقابلہ کریں ۔ وقت کی ضرورت ہے کہ وفاق اور صوبے مل کر اس کی اونر شپ لیں۔ پشاور واقعے کی تحقیقات ہونی چاہیے کہ کمزوری کہاں تھی ۔ ہمیں تنقید برائے تنقید سے پرہیز کرنا ہوگا۔
وزیراعظم نے کہا کہ دہشت گردی کے واقعے کے بعد ہربار طعنہ ملتاہے کہ وفاق ساتھ نہیں دے رہا۔ 2010سے اب تک خیبرپختونخوا حکومت کو 417ارب روپے دیے جاچکے ہیں۔ دہشت گردی کےخاتمے تک آرام سے نہیں بیٹھیں گے ۔ کسی پر تنقید نہیں کررہا ،آج ہمیں حق کی بات کہناپڑ ے گی ۔ ہمارا سوال ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت کو دیے گئے وہ 417ارب روپے کہاں ہیں؟۔
انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں اگر کوئی شہید ہوتا ہے تووہ پاکستانی پاسپورٹ ہے۔ چیلنجز کے باوجود دہشت گردی پر قابو پانے کی کوشش کریں گے ۔ اختلافات بھلا کر ہم نے مل کر قوم کو یکجا کرنا ہے۔ ہمیں ہر طرح کے اختلافات کو ایک طرف رکھنا چاہیے۔ دہشت گردوں کا نہ کوئی دین ہے نہ ایمان ہے۔ چاروں صوبے ملک کی اہم اکائیاں ہیں۔