"فوجداری قانون میں ترمیم کے بل کا تجزیاتی جائزہ اور توہین مقدسات کے حقائق سے پردہ برداری" کے عنوان سے تحلیلی و تجزیاتی نشست کا انعقاد شعبہ تحقیق جامعہ روحانیت بلتستان پاکستان کی جانب سے کیا گیا۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، فوجداری قانون میں ترمیم کے بل کا تجزیاتی جائزہ اور توہین مقدسات کے حقائق سے پردہ برداری ‘‘ کے عنوان سے تحلیلی و تجزیاتی نشست کا انعقاد شعبہ تحقیق جامعہ روحانیت بلتستان پاکستان کی جانب سے فاطمیہ ہال حسینیہ بلتستانیہ قم میں کیا گیا۔نشست کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے کیا گیا۔ قاری حجۃ الاسلام والمسلمین سید حامد رضوی صاحب نے تلاوت قرآن مجید کی سعادت حاصل کی۔ نظامت کے فرائض حجۃ الاسلام بشیر دولتی نے انجام دییے۔

کانفرنس کے ابتدائیے میں انہوں نے شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور پاکستان جیسے کثیرالمسالک ملک میں بھائی چارے اور اتحاد امت کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے مسائل کو افہام وتفہیم نیز علمی، تاریخی اور ثقافتی مشترکات کو سامنے رکھتے ہوئے حل کرنے کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔

اس کے بعد انہوں نے مذکورہ موضوع پر سیر حاصل گفتگو کے لئے معروف تجزیہ نگار اور مذہبی اسکالر نذرحافی کو دعوت دی۔

انہوں نے اپنی مقدماتی گفتگو میں تعلیم و تعلم، تحقیق اور علما کی اہمیت پروشنی ڈالی۔ صاحبان علم و دانش کی بزم میں انہوں مکتب باقر العلوم اور صادق آل محمد ع اور حوزہ علمیہ قم المقدس سے منسوب علمائے کرام کی خصوصیات اور صلاحیتوں پر بھی گفتگو کی نیز ان سے وابستہ قومی، ملی، ملکی اور عوامی توقعات کو بھی اجاگر کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ حقیقی عالم ،حکیم اور دانشور وہ شخص نہیں جو تفرقہ اندازی کرتا ہے اور تعصبات کو ہوا دیتا ہے۔ بلکہ حقیقی صاحب حکمت انسان وه ہے جو نفرتوں کے بجائے اتحاد اور محبت کو پھیلاتا ہے۔معروف تجزیہ نگار استاد نذر حافی نے کہا کہ مکتب امام جعفر صادق ع کو اس صدی میں بھی یہ افتخار حاصل ہے کہ اس مکتب نے اس صدی میں دنیا کو ایران میں حقیقی اسلامی انقلاب دیا، مشرق وسطی میں حقیقی معنوں میں حزب اللہ کی صورت میں اسلام کا دفاع کیا اور پاکستان کی شکل میں پہلی اسلامی نظریاتی ریاست تشکیل دی۔

انہوں نے اس پر زور دیا کہ ہم نام نہاد تکفیری بل کو مسترد کرتے ہیں۔ جہاں پر لفظ توہین اور لفظ صحابی کی تعریف ضروری ہے وہیں ہمارا مطالبہ ہے کہ نبی اکرم ص کے والدین اور ان کے چچا حضرت ابوطالب علیہ السلام کی توہین کو بھی بل میں شامل کیا جائے۔ شیعہ اور سنی مسلمانوں کے قدیمی فرقے ہیں۔ ان دونوں فرقوں کے درمیان ایک دوسرے کے مقدسات کی توہین حرام ہے۔ شیعہ مراجع اس حوالے فتویٰ دے چکے ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان اتحاد واجب ہے۔ شیعہ اور سنی کے درمیان وحدت و بھائی چارے کی فضا کو ختم کرنے کی کوشش کرنے والے استعمار کے ایجنٹ ہیں۔ شیعہ و سنی دونوں کھل کر آپس میں بھائی بھائی ہیں اور ڈٹ کر نواصب اور خوارج کے خلاف ہیں۔ جماعت اسلامی اپنی پوزیشن واضح کرے۔

اس موقع پر انہوں نے شہید ضیاالدین کی بصیرت کو بطور نمونہ بیان کیا اور اس امر کی تاکید کی کہ پاکستان میں وطن عزیز کی جغرافیائی و نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کیلئے، مکتب امام صادق علیہ السلام والوں کے پاس اپنے مطالعاتی مراکز اور تھنک ٹینکس ہونے چاہیے۔

انہوں نے پاکستان کے تمام مقتدر اداروں، باشعور عوام، سیاسی پارٹیوں، صحافی حضرات اور انسانی حقوق کے اداروں کو غیر جانبدارانہ طور پر اس نام نہاد بل کے مضمرات کا جائزہ لینا چاہیے اور اسے بھرپور طریقے سے مسترد کرنا چاہیے۔ اس موقع پر انہوں نے کہاکہ جماعت اسلامی میں بھی بڑے ویژن اور بڑی سوچ والے لوگ موجود ہیں، انہیں جماعت کو سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کا کردار ادا کرنے سے روکنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے حقائق کو بیان کرنے کی ضرورت ہے اور یہ حقیقت واضح ہے کہ پاکستان کے محب وطن اور باشعور عوام فوجداری بل میں ترمیم کے نام پر انسانی کشی کی اجازت نہیں دیں گے۔

انہوں نے مزید کہاکہ ہم نام نہاد تکفیری بل کو مسترد کرتے ہیں۔ جہاں پر لفظ توہین اور لفظ صحابی کی تعریف ضروری ہے وہیں ہمارا مطالبہ ہے کہ نبی اکرم ص کے والدین اور ان کے چچا حضرت ابوطالب علیہ السلام کی توہین کو بھی بل میں شامل کیا جائے۔ شیعہ اور سنی مسلمانوں کے قدیمی فرقے ہیں۔ ان دونوں فرقوں کے درمیان ایک دوسرے کے مقدسات کی توہین حرام ہے۔ شیعہ مراجع اس حوالے فتویٰ دے چکے ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان اتحاد واجب ہے۔ شیعہ اور سنی کے درمیان وحدت و بھائی چارے کی فضا کو ختم کرنے کی کوشش کرنے والے استعمار کے ایجنٹ ہیں۔ شیعہ و سنی دونوں کھل کر آپس میں بھائی بھائی ہیں اور ڈٹ کر نواصب اور خوارج کے خلاف ہیں۔ جماعت اسلامی اپنی پوزیشن واضح کرے۔