پاکستانی ممتاز عالم دین علامہ امین شہیدی نے کہا کہ عبودیت کے اصل فلسفہ کو سمجھنے کے بعد ہی انسان کمال کے مرتبہ کو حاصل کر سکتا ہے۔ محض کثرتِ سجدہ اور داڑھی انسان کی پرہیزگاری کو ثابت نہیں کرتے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امتِ واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی نے آئی ایس او بہاولپور کی جانب سے تعمیر وطن کانفرنس میں شرکت اور خطاب کیا۔ انہوں نے ”مقائسہ مابین الہی و مادی انسان“ کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اللہ نے انسان کی ہدایت و رہنمائی کے لئے انبیاء علیہم السلام کو بھیجا، آسمانی کتابیں نازل فرمائیں اور اسے بااختیار بھی بنایا۔ اگر خدا چاہتا تو اس کے لئے عین ممکن تھا کہ انسان کو فرشتوں کی طرح پاکیزہ، نیک، متبع اور بے اختیار خلق کرتا لیکن اللہ نے انسان کو خیر و شر کی قوتیں عطا کیں اور ان دو قوتوں کے فرق کو سمجھنے کے لئے ایک باطنی پیامبر سے بھی نوازا جسے عقل کہتے ہیں۔ انسان ملکوتی اور ناسوتی خصوصیات کا مجموعہ ہے، ظاہری طور پر اس کی مدد کے لئے انبیاء و آسمانی کتابوں کو نازل کیا گیا تاکہ وہ اس کے اندر کے حقیقی انسان کو بیدار کر سکیں اور عقل کے دائرہ میں رشد و ہدایت کا راستہ دکھا کر اسے ترقی کی ان منازل تک لے جائیں جہاں فرشتے بھی اس کے مقام پر رشک کریں۔ لیکن بعض اوقات انسان عقل رکھنے کے باوجود عارضی مفادات کے حصول کے لئے غلط راستہ کا انتخاب کرتا ہے۔ اگرچہ ظاہری طور پر وہ مفادات فائدہ مند محسوس ہوتے ہیں لیکن ابدی زندگی کے لئے خسارہ کا باعث ہوتے ہیں۔ اسی لئے آدمی کے اندر کے الہی اور مادی انسان میں جنگ رہتی ہے اور وہ لوگوں پر ظلم کرنے کے ساتھ عبادات بھی انجام دیتا ہے۔ 

علامہ امین شہیدی نے کہا کہ عبودیت کے اصل فلسفہ کو سمجھنے کے بعد ہی انسان کمال کے مرتبہ کو حاصل کر سکتا ہے۔ محض کثرتِ سجدہ اور داڑھی انسان کی پرہیزگاری کو ثابت نہیں کرتے۔ عبودیت انسان کی طلب ہے، اس کی انجام دہی میں کوتاہی انسان کو بے چین و مایوس رکھتی ہے اور نتیجتا وہ خودکشی کا ارتکاب کرتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں موحد و خدا پرست انسان خداوند متعال کے بتائے ہوئے راستہ پر گامزن رہتا ہے اور عبودیت کی روح کو بھی سمجھتا ہے۔ وہ خلقتِ انسانی کے ہدف سے آشنا ہوتا ہے اسی لئے سخت ترین حالات کے باوجود اس کا ایمان متزلزل نہیں ہوتا۔ عاشور کے دن جب حسین ابن علی علیہ السلام جنگ کے آخری مرحلہ پر پہنچے تو وہ تنہا تھے، ان کے انصار و اعوان جامِ شہادت نوش کر چکے تھے اور ان کے لاشے حسینؑ ابن علیؑ کے گرد ٹکڑوں میں بکھرے ہوئے تھے۔ آپؑ کے سامنے ہزاروں کا لشکر تھا اور آپؑ کی شہادت یقینی تھی لیکن مؤرخ کہتا ہے کہ جیسے جیسے حسینؑ ابن علیؑ کی شہادت کا وقت قریب تر ہوتا جا رہا تھا، ان کے چہرہ مبارک کی طمانیت اور نور میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ سخت ترین حالات میں نفسِ مطمئنہ کا اظہار کرنے والا شخص ہی امام حسین علیہ السلام کا حقیقی پیروکار ہے۔ اسی طرح عاشور کے بعد حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے اسارت اور مصائب جھیلنے کے باوجود ابنِ زیاد کے سخت سوال کا بہترین جواب دیا اور فرمایا: ما رایت الا جمیلا۔ یعنی آپ سلام اللہ علیہا کے نزدیک قتلِ حسینؑ اور اسارت خدا کے جمال کا عکس تھا۔ مقصد امام حسین علیہ السلام اس قدر بلند تھا کہ ان ہستیوں کی نگاہ میں تمام مصائب اللہ کی طرف سے عطا کردہ انعامات تھے جن کو انہوں نے شکرانہ کے ساتھ قبول کیا۔

لیبلز