مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں 60 لاکھ افراد قحط کے دہانے پر ہیں۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ نے بدھ کے روز خبردار کیا کہ بقدر کافی انسانی امداد کے فقدان کی وجہ سے افغانستان میں 60 لاکھ افراد کو بجٹ کی کمی کی بنا پر ہنگامی سطح پر غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے۔
اقوام متحدہ کے ڈپٹی نمائندہ خصوصی اور افغانستان میں مقیم انسانی ہمدردی کے امور کے رابطہ کار رامیز الکباروف نے کابل میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں صحافیوں کو بتایا کہ "ان دنوں ہم جن معاشی جھٹکوں کا سامنا کر رہے ہیں وہ انسانی ضروریات کے بنیادی محرک ہیں۔" انہوں نے کہا: "ملک کے کچھ علاقوں میں سردیوں کا موسم منفی 25 ڈگری سینٹی گریڈ کے قریب پہنچ رہا ہے۔" الکباروف نے کہا کہ ہمیں موسم سرما کی تیاری میں مدد کے لیے 768 ملین ڈالر کی ضرورت ہے جبکہ سال کے اختتام سے پہلے 614 ملین ڈالر کی ضرورت ہے... ہمیں پورے سال کے فنڈ حاصل کرنے مشکلات کا سامنا رہا ہے۔"
اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان میں کل آبادی کا دو تہائی یعنی 28 ملین سے زیادہ افراد کو اگلے سال انسانی امداد کی ضرورت ہوگی۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے اس عہدیدار نے کہا کہ افغانستان میں غذائی عدم تحفظ کی سطح سب سے زیادہ ہے، تقریباً 60 لاکھ افراد کو ہنگامی سطح پر غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے جسے IPC4 بھی کہا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ فیز 5 میں جانے سے پہلے کا مرحلہ ہے، اور فیز 5 بنیادی طور پر ایک تباہ کن قحط کا مرحلہ ہے لہذا، 6 ملین لوگ اس مخصوص باڈر کے قریب آ رہے ہیں۔
واضح رہے کہ 15 اگست 2021 کو افغانستان میں طالبان کی اقتدار میں واپسی، جس کے بعد بین الاقوامی مالیاتی امداد میں خلل پڑا، نے اس خستہ حال ملک کو معاشی، انسانی اور انسانی حقوق کے بحرانوں میں دھکیل دیا ہے۔ طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے افغانستان کی امداد روک دی ہے۔ بائیڈن انتظامیہ نے طالبان کے خلاف پابندیوں کے ایک حصے کے طور پر افغانستان کے مرکزی بینک کے غیر ملکی ذخائر کی 7 بلین ڈالر رقم کو منجمد کیا ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغانستان کے غیر ملکی اثاثوں کو بحال کرے۔
افغانستان میں خواتین اور لڑکیاں تعلیم کے حق سمیت اپنے دیگر حقوق سے بھی محروم ہیں۔ اس کے علاوہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد ہزاروں خواتین اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں یا سرکاری اداروں اور نجی شعبے سے مستعفی ہونے پر مجبور ہوئیں۔ لڑکیوں کے ہائی اسکول جانے پر پابندی لگا دی گئی ہے جبکہ خواتین کی ایک بڑی تعداد سڑکوں پر نکل آئی ہے اور احتجاج و مظاہروں کے ذریعے اپنے حقوق کی بحالی کا مطالبہ کر رہی ہیں اور مختلف حقوق کی مہمیں چلا رہی ہیں۔