امت واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی نے امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن راولپنڈی کے تعمیر وطن کنونشن میں شرکت اور خطاب کیا جس میں تنظیم کے نوجوانوں اور سینئر اراکین نے شرکت کی۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امت واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی نے امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن راولپنڈی کے تعمیر وطن کنونشن میں شرکت اور خطاب کیا جس میں تنظیم کے نوجوانوں اور سینئر اراکین نے شرکت کی۔ علامہ امین شہیدی نے کہا کہ آئی ایس او دوسری تنظیموں کی نسبت الگ اور نمایاں خصوصیات کی حامل ہے۔ ان میں سے پہلی خصوصیت یہ ہے یہ کہ آئی ایس او کے اراکین بے داغ ماضی اور پاکیزہ قلب و جذبہ کے ساتھ تنظیم میں داخل ہوتے ہیں۔ اگرچہ دیگر طلبہ تنظیمیں بھی سرگرمِ عمل ہیں لیکن یہ وہ واحد تنظیم ہے جس کی شناخت دین ہے، ہر نوجوان رکن دین کی محبت اور خدمت کے جذبہ کے ساتھ تنظیم میں شامل ہوتا ہے اور عہدہ، مراعات یا پیسے کی لالچ کے بغیر خدمات انجام دیتا ہے۔ دین کی محبت سے مراد زندہ دین کی جستجو ہے جو نوجوانوں کو معاشرتی مسائل کا حل بتانے کے ساتھ انہیں مرکز سے بھی جوڑتا ہے۔ معصومؑ کی ولایت یا معصومؑ کی غیبت کے زمانہ میں ان کے جانشین، فقیہ اور ولی سے اپنے آپ کو متصل کرنا دین سے جُڑنے کے مترادف ہے۔ نظریاتی حوالہ سے ہماری اجتماعی زندگی میں یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ ہم اپنے زمانے کے ولی سے جُڑے رہیں۔ دیگر تنظیموں کی نسبت آئی ایس او آج بھی اس نظریہ پر قائم اور عمل پیرا ہے۔ آئی ایس او کی دوسری انفرادی خصوصیت یہ ہے کہ اس تنظیم کا رکن نوجوان واجبات کی ادائیگی کے ساتھ اپنی انفرادی تربیت و تزکیہ پر بھی بھرپور توجہ دیتا ہے تاکہ باطنی کمالات کو زیادہ سے زیادہ فروغ دے سکے۔ اس کے مقابلہ میں ایسی تنظیموں کا بھی قریب سے مشاہدہ کیا ہے جو دین کا نام استعمال کرتی ہیں لیکن انفرادی زندگی کی معنویت کو اہمیت نہیں دیتیں۔

انہوں نے کہا کہ انسان کا تعلق خواہ کسی بھی تنظیم سے ہو، نعرہ بازی اس کی جوانی کا تقاضہ ہے لیکن آئی ایس او کے نوجوان صرف نعرہ بازی پر یقین نہیں رکھتے بلکہ شعور، آگہی اور معنویت کے ساتھ فرنٹ لائن پر کھڑے نظر آتے ہیں۔ اس کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ پچاس سال گزر جانے کے باوجود بھی یہ پچیس سالہ جوان کی مانند ہے۔ سینئر ارکان کی جگہ نئے نوجوان لیتے ہیں، اس طرح ہر باصلاحیت فرد کو کارکردگی دکھانے اور خدمت کرنے کا موقع ملتا ہے۔ مستعد اور چاق و چوبند جوانوں کی موجودگی کی وجہ سے تنظیم پرانی محسوس نہیں ہوتی۔ تنظیم کے تربیت یافتہ افراد انتہائی مضبوط ہو کر باہر آتے ہیں اور مشکلات کے باوجود ان کے پاؤں نہیں اکھڑتے۔ اسی لئے ہم نے دیکھا کہ ماضی میں سیاستدانوں، ایجنسیوں اور اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے پیش آنے والے واقعات کے باوجود تنظیم نے اپنا سفر جاری رکھا اور ولی سے اپنا تمسک اور رابطہ کمزور ہونے نہیں دیا۔

علامہ امین شہیدی نے کہا کہ کسی بھی تنظیم کے مضبوط ہونے اور معاشرہ میں مثبت کردار ادا کرنے کا تعلق اس کے نظریہ اور اراکین کے ایمان سے ہوتا ہے۔ ان دونوں کے بغیر تنظیم کا دستور اگرچہ باقی رہتا ہے لیکن اس کی روح ختم ہو جاتی ہے اور تنظیم کی تشکیل کے مقاصد فوت ہو جاتے ہیں۔ ایمان کے ساتھ بصیرت اور آگہی کا ہونا بہت ضروری ہے اور اگر عقل و معرفت کے ساتھ کسی راستہ کا انتخاب کیا جائے تو مشکلات کے باوجود قدم نہیں ڈگمگاتے۔