مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق مڈل ایسٹ آئی نے انسانی حقوق کی ایک تنظیم کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ سعودی عرب کی عدالت نے نیوم پروجیکٹ پر اعتراض کرنے والے دو سعودی شیخوں کے خلاف سخت فیصلے صادر کیے ہیں۔
مذکورہ رپورٹ کے شمال مغربی سعودی عرب میں الحویطات قبیلے کے شیخ عبداللہ الحویطی اور عبداللہ دخیل الحویطی نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے نیوم شہر کی تعمیر کے منصوبے پر اعتراض کیا ہے۔ یہ قبیلہ نیوم شہر کی عین تعمیراتی جگہ پر واقع ہے اور سعودی عدالت نے اس کے لوگوں کو ہجرت پر مجبور کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سعودی عدالت نے عبداللہ الحویطی اور عبداللہ دخیل الحویطی کو 50 سال قید اور 50 سال کے لئے بیرون ملک سفر پر پابندی کی سزا سنائی ہے کیونکہ ان کی جانب سے قبائلی افراد کے مکانات کو خالی کرانے اور نیوم پروجیکٹ کی مخالفت کی گئی تھی۔
القسط نامی تنظیم نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ یہ فیصلے اگست میں سعودی عرب کی فوجداری اپیل کورٹ نے جاری کیے تھے۔
نیوم پروجیکٹ سے متعلق ایک اور پیشرفت میں وال اسٹریٹ جرنل نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے نیوم میں نائٹ کلب بنانے اور الکوحل کے مشروبات کی آزادانہ فراہمی کے منصوبے کی رپورٹ دی ہے۔ اخبار کے مطابق بن سلمان یہ اقدام سیاحوں اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کی کشش بڑھانے کے لیے اٹھائیں گے تاہم ان کے اس اقدام کی سعودی عرب میں مذہبی حلقوں کی جانب سے شدید مخالفت کی جا سکتی ہے۔
واضح رہے کہ نیوم سعودی عرب کے شمال مغرب میں طائف کے علاقے میں ایک میگا سٹی کی تعمیر کا منصوبہ ہے، جس کے پہلا فیز کا افتتاح 2025 تک ہونا ہے۔ اس شہر کا رقبہ 26,500 مربع کلومیٹر بتایا جاتا ہے یعنی نیویارک سٹی سے 33 گنا اور قطر سے تین گنا زیادہ۔
نیوم سٹی کی تعمیر پر لاگت کا تخمینہ 500 بلین ڈالر لگایا گیا ہے اور رپورٹس کے مطابق اس منصوبے کے دوران فرانسیسی کمپنیاں 1000 کلومیٹر طویل سولر روڈ تعمیر کریں گی اور برطانوی کمپنیاں بھی ونڈ پاور سسٹم کے ذریعے بجلی تیار کریں گی اور کروز تفریحی کشتیاں بھی بنائیں گی جبکہ ڈچ کمپنیاں بھی مکمل طور پر جدید اور پیش رفتہ پلوں کی تعمیر کے ذریعے بڑی اور اونچی اونچی عمارتوں کو آپس میں جوڑیں گی۔