ایران اور روس کے صدور نے جمعرات کو ازبکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے اجلاس کی سائڈ لائن پر دو طرفہ ملاقات کی، روسی صدر نے اپنے ایرانی منصب سے کہا کہ روس اور ایران کے درمیان تعاون کے نئے معاہدے پر کام آخری مراحل میں ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی اور ولادیمیر پیوٹن نے آج (جمعرات 24 ستمبر) ازبکستان کے شہر سمرقند میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کی سائڈ لائن پر ایک دوسرے سے ملاقات اور گفتگو کی۔ دونوں رہنماوں نے ملاقات کے دوران دو طرفہ اقتصادی تعاون کے شعبے کا تفصیلی جائزہ لیا اور روس اور ایران کے درمیان تعلقات بالخصوص بینکنگ، زمینی اور سمندری نقل و حمل، کسٹم اور توانائی کے شعبوں میں نمایاں پیش رفت پر اپنے اطمینان کا اظہار کیا۔

ملاقات میں روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم میں ایران کی مکمل رکنیت کے لیے جو کچھ ضروری ہو گا ہم کریں گے اور روس اس سلسلے میں  کوئی کسر نہیں چھوڑے گا، آخری رسمی کارروائیاں باقی ہیں۔

پیوٹن نے رئیسی سے مزید کہا کہ تنظیم میں ہمارے شراکت داروں نے آپ کی درخواست کی حمایت کی۔

ماسکو اور تہران کے درمیان وسیع کاروباری تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے ولادیمیر پیوٹن نے دونوں ممالک کے اقتصادی حکام کے دوروں میں اضافے پر اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ روس اور ایران کے درمیان تجارت کے حجم میں گزشتہ سال 81 فیصد جبکہ رواں سال کے پہلے 5 مہینوں میں 30 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ روس کا ایک وفد جس میں 80 بڑی روسی کمپنیوں کے نمائندے شامل ہیں اگلے ہفتے ایران روانہ ہوں گے۔

ملاقات میں پیوٹن کا کہنا تھا کہ روس اور ایران کے درمیان تعاون کے نئے معاہدے پر کام آخری مراحل میں ہے اور اس سلسلے میں دو طرفہ اسٹریٹجک اقتصادی تعاون کی دستاویز کا ابتدائی مسودہ تیار کرنے کے لئے اپنی آمادگی کا اعلان کیا۔

روسی صدر کے مطابق رہبر معظم انقلاب کی حمایت سے روس اور ایران کے بہت سے منصوبے آگے بڑھ رہے ہیں۔ ہم مستقبل میں بھی یہ تعاون چاہتے ہیں۔

ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے جواب میں کہا کہ ایران اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کی رکنیت ایک ایسی شراکت داری ہے جس سے نہ صرف ایران کو فائدہ ملے گا بلکہ یہ تنظیم کے تمام اراکین کے مفاد میں بھی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایران جوہری مذاکرات سے باہر نہیں آیا بلکہ یہ امریکہ اور یورپی ممالک تھے جو اپنے وعدوں سے مکر گئے۔ 

ایران کے صدر نے تہران ماسکو اقتصادی تعاون کو دونوں ملکوں اور خطے کے دیگر ممالک کے لیے مفید قرار دیا اور دوطرفہ اقتصادی، ٹرانزٹ اور بینکنگ تعاون کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا۔

صدر رئیسی نے نیٹو کی توسیع پسندانہ پالیسیوں کا جائزہ لیتے ہوئے قفقاز میں ہونے والی پیش رفت کا ذکر کیا اور کہا کہ خطے کی جغرافیائی سیاست اور جیوپولیٹیکس میں کوئی بھی تبدیلی عدم استحکام کے پھیلاو کا باعث اور ناقابل قبول اقدام ہوگی۔

انہوں نے امریکہ کی خود مختار اور مستقل ملکوں کے ساتھ برتاو میں اندازوں کی غلطیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ جس ملک پر پابندیاں عائد کی جائیں گی وہ حکومت اور قوم رک جائے گی تاہم یہ اندازے کی غلطی ہے کیونکہ انہوں نے عمل میں اپنے آپ کو محدود کر رکھا ہے۔