مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق ایران کے صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی نے آرمینیا کے وزیر اعظم نکول پاشینیان کی فون کال کے جواب میں آج (منگل) کے روز خطے میں کشیدگی کے جاری رہنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا: قفقاز کا خطہ خاص حالات سے گزر رہا ہے اور بدقسمتی سے اس خطے میں ابھی تک امن واپس نہیں آیا ہے۔
انہوں نے علاقے میں صیہونی حکومت کے اثر و رسوخ کی طرف بھی اشارہ کرتے ہوئے اس کی موجودگی کو اس کے میزبانوں سمیت پورے خطے کے لیے خطرہ قرار دیا۔
یہ بیان کرتے ہوئے کہ ایران خطے میں ہونے والی پیش رفت کو احتیاط سے دیکھ رہا ہے، صدر رئیسی نے کہا کہ خطہ ایک اور جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ قفقاز کے علاقے کی سلامتی اسلامی جمہوریہ ایران کے لئے بہت اہم ہے، کہا کہ سہ فریقی جنگ بندی کے اعلامیے پر دستخط کرنے والوں کو اس کی شرائط پر عمل کرنا چاہیے اور خطے میں کشیدگی پیدا کرنے والے کسی بھی اقدام سے گریز کرنا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایران اور آرمینیا کی تاریخی سرحدیں خطے کی خوشحالی، ہم آہنگی اور سلامتی کی بنیاد سمجھی جاتی ہیں اور تہران خطے کی خوشحالی اور استحکام کے لیے تمام شعبوں میں تعاون جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔
آرمینیا کے وزیر اعظم نیکول پاشینیان نے اپنی گفتگو کے دوران قفقاز کے علاقے کی تازہ ترین پیشرفت اور آرمینیا اور آذربائیجان کے مابین حالیہ جھڑپوں کی تفصیلات بیان کیں اور کہا: اسلامی جمہوریہ ایران نے ہمیشہ خطے میں کشیدگی اور بحرانوں کے حل کے لیے تعمیری اور بااثر کردار ادا کیا ہے۔
پاشینیان نے تہران اور ایروان کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات پر اطمینان کا اظہار کیا اور اور تاکید کی: آرمینیا تمام شعبوں میں اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ تعلقات کو مزید گہرا کرنے کا خواہاں ہے۔
یاد رہے کہ آرمینیا اور آذربائیجان نے نئی سرحدی جھڑپوں کی اطلاع دی ہے جس میں متعدد آذربائیجانی اور آرمینیائی فوجی مارے گئے ہیں۔
جنوبی قفقاز میں دونوں ممالک کے درمیان متنازعہ علاقے کے کنٹرول کے متعلق دہائیوں پرانی دشمنیوں کی تازہ ترین شدت میں راتوں رات کشیدگی بھڑک اٹھی جبکہ دونوں فریق لڑائی کا الزام دوسرے پر لگا رہے ہیں۔
آذربائیجانی میڈیا کے مطابق دونوں ممالک نے قرہ باغ کے علاقے میں کشیدگی روکنے کے لیے منگل کی صبح جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا، تاہم یہ اتفاق چند منٹ بعد ٹوٹ گیا۔
تنازعہ پہلی بار 1980 کی دہائی کے اواخر میں شروع ہوا، جب دونوں فریق سوویت حکمرانی کے تحت تھے اور آرمینیائی افواج نے قرہ باغ کے قریب ایک وسیع علاقے پر قبضہ کر لیا تھا، جسے بین الاقوامی سطح پر آذربائیجان کا علاقہ تسلیم کیا جاتا تھا۔ اس کے نتیجے میں ہونے والی لڑائی میں تقریباً 30,000 افراد مارے گئے۔
آذربائیجان نے 2020 کی لڑائی میں ان علاقوں کو دوبارہ حاصل کر لیا، جس کا اختتام روس کی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی کے ساتھ ہوا اور ہزاروں باشندے اپنے گھروں کو واپس لوٹ گئے جہاں سے وہ بھاگ گئے تھے۔ چھ ہفتے تک جاری رہنے والی جنگ میں ساڑھے چھ ہزار سے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
اس کے بعد سے دونوں ممالک کے رہنماؤں نے ایک پائیدار امن قائم کرنے کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے کئی بار ملاقاتیں کی ہیں۔
در ایں اثنا مئی اور اپریل میں برسلز میں یورپی یونین کی ثالثی میں ہونے والی بات چیت کے دوران، آذربائیجان کے صدر الہام علییف اور آرمینیائی وزیر اعظم نکول پاشینیان نے مستقبل کے امن معاہدے پر "پیشگی بات چیت" پر اتفاق کیا تھا۔
آرمینیائی حکومت کے مطابق، پاشینیان نے منگل کو روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کے ساتھ تازہ ترین جھڑپوں پر الگ الگ فون کالز بھی کیں۔
اجراء کی تاریخ: 13 ستمبر 2022 - 17:37
ایرانی صدر اور آرمینیا کے وزیر اعظم نے منگل کو جنوبی قفقاز کے علاقے میں حالیہ فوجی کشیدگی کے متعلق فون پر بات کی، صدر رئیسی نے سہ فریقی جنگ بندی کے اعلامیے پر دستخط کرنے والوں کے اس پر کاربندے رہنے پر زور دیا۔