امریکا میں ملعون سلمان رشدی پر چاقو سے حملہ ہوا جس کے نتیجے میں شدید زخمی ہوا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی نے عالمی میڈیا سے نقل کیاہے کہ ملعون سلمان رشدی پر حملہ امریکی ریاست نیویارک کے علاقے شوٹاکوا میں اس وقت ہوا جب وہ ایک تقریب سے خطاب کیلئے اسٹیج پر پہنچا۔

رپورٹ کے مطابق جمعے کی صبح سی ایچ کیو 22 کے عنوان سے منعقدہ تقریب میں سلمان رشدی کو خطاب کرنا تھا اور جیسے ہی وہ اسٹیج پر آیا ایک شخص نے اس پر حملہ کردیا۔

عینی شاہدین کے مطابق حملے کے فوری بعد سلمان رشدی کو وہاں سے لے جایا گیا جبکہ حملہ آور کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ سلمان رشدی کی کتاب گستاخانہ کتاب “The Satanic Verses” پر 1988 سے ایران میں پابندی عائد ہے۔

سلمان رشدی ملعون کون ہے؟

1988 میں  برطانیہ میں مقیم ایک ہندوستانی نژاد سلمان رشدی نے رسول اکرمۖ کی توہین پر مبنی ایک کتاب تحریر کی جس میں رسول اکرمۖ کے توہیں کے علاوہ یہ ہرزہ سرائی بھی کی گئی کہ قران مجید اللہ کیطرف سے حضرت محمدۖ پر نازل نہیں ہوا بلکہ یہ خود انکے اپنے افکاروخیالات کا مجموعہ ہے۔ سلمان رشدی کی اس کتاب کے سامنے آتے ہی تمام عالم اسلام میں شدید غم وغصے کی لہر دوڑ گئی ۔مغرب نے اس بات کا احساس کئے بغیر کہ اس سے دنیا بھر میں موجود ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچی ہے اسلام کے خلاف پروپگینڈے کا بازار گرم کردیا۔مغربی حکومتوں  بالخصوص امریکہ نے مسلمانوں کے جذبات کا احترام کرنے کی بجائے شیطانی آیات نامی اس کتاب کے مصنف پر انعامات کی بارش کردی اور برطانیہ کی ملکہ نے تو بےشرمی کی تمام حدود کو پھلانکتے ہوئے ملعون سلمان رشدی کو" سر" کا خطاب دے دیا۔مغربی ممالک  کی طرف سے اس متنازعہ کتاب کی حمایت ایک عادی اور روزمرہ کی بات نہ تھی وہ اس حمایت کے ذریعے مسلمانوں کے تاثرات اور ردعمل کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ اسلام کے مقدسات  بالخصوص قران اور پیغامبر گرامی کے خلاف توہین کے مذموم منصوبے کا آغاز کرنا چاہتے تھے۔امام خمینی رح نے ایک دور اندیش رہبر کی حیثیت سے مغرب کی اس سازش کو بھانپتے ہوئے 14 فروری 1988 کو قران وسنت کی روشنی میں  سلمان رشدی کے واجب القتل ہونے کا تاریخی فتوی صادر کیا۔اس فتوی کو تمام عالم اسلام میں زبردست پزیرائی ملی۔ امام خمینی رح کی رحلت کے بعد رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے بھی اس فتوی پر تاکید کی اور اسے ناقابل واپسی قرار دیا۔

امام خمینیؒ کے اس تاریخی فتوی پر مغربی ممالک کا ردعمل اس قدر شدید تھا کہ ایران میں تعینات گیارہ یورپی ملکوں نے تہران سے اپنے سفیر واپس بلا لئے اور ایرنی حکومت اور عوام کو شدید ترین سیاسی اور اقتصادی پابندیوں کی دھمکیاں دیں۔ایرانی قوم اور اور حکومت کی استقامت اور پامردی اس بات کا باعث بنی کہ بارہ کے بارہ  یورپی ممالک کے سفیر بغیر کسی شور شرابے کے تہران واپس آگئے۔غاصب صیہونی حکومت اور برطانیہ  ملعون سلمان رشدی کی حفاظت پر خطیر رقم خرچ کر رہے ہیں لیکن اسکے باوجود سلمان رشدی اس فتوی پر عمل درآمد کے خوف سے سیکورٹی کے انتہائی سخت انتظامات میں زندگی گزار رہا ہے۔