مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، پاکستانی ممتاز عالمِ دین علامہ محمد امین شہیدی نے محرم الحرام ۱۴۴۴ھ کی تیسری مجلس سے خطاب کیا۔ ”بعثت سےظہور تک“ کے عنوان پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اللہ کے آخری رسول جب مبعوث برسالت ہوئے تو انہوں نے عالمِ بشریت کو ایک ایسا فلاحی نظام دیا جس کا تعلق جسم کی فلاح اور روح کی سعادت سے ہے اور یہ نظام دنیوی زندگی کی سرفرازی کے ساتھ اخروی زندگی کی سربلندی کا ضامن بھی ہے۔ دین اسلام ایک ایسا نظام حیات ہے کہ جس کے اپنانے سے ظلم و ستم کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور عالمِ بشریت کا ہر انسان پرامن و پرسکون رہتا ہے۔ یہ کامل ترین اور آخری دین ہے۔ اس کی تعلیمات میں مزید ترقی ممکن نہیں، تاہم ان تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے انسان کا معراجِ انسانیت تک پہنچنا ممکن ہے۔ اب یہاں سے انسانی ذمہ داری اور امتحان کا آغاز ہوتا ہے کہ آیا انسان دینی تعلیمات کو حیوانی نگاہ سے دیکھتا ہے یا انسانی نظر سے۔ اللہ کے لئے مشکل نہ تھا کہ وہ انسان کو فرشتوں کی طرح پاک و پاکیزہ خلق کرتا، اس کو سعادتِ دنیوی و اخروی سے نواز دیتا اور گناہ و نافرمانی کے ارتکاب سے محفوظ رکھتا۔ اگر ایسا ہوتا تو انسان کلیتا بے اختیار مخلوق ہوتا۔ لہذا انسان کو فرشتوں جیسا خلق نہ کرنے میں یقینا کوئی حکمت پوشیدہ تھی۔ اللہ تعالی نے فرشتوں کو مجبورِ محض بنایا لیکن انسان کو بااختیار بنانے کے ساتھ عقل بھی عطا فرمائی تاکہ وہ اپنی مرضی سے صحیح یا غلط راستہ کا انتخاب کرے۔ خداوند متعال نے اس کی منزل کا تعین کر کے یہ بھی بتا دیا کہ اگر تم کمال کی معراج تک پہنچنا چاہتے ہو تو صحیح سمت کا انتخاب کرنا ضروری ہے۔
دوسری بات جو بڑی اہم ہے وہ یہ کہ نبوت کا سلسلہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ پر تمام ہوچکا، لہذا اللہ نے اپنی مشیت کا جو پلان مرتب کیا وہ صرف دس سے گیارہ ہجری تک کے انسانوں کے لئے نہیں تھا۔ یہ پلان قیامت تک آنے والے انسانوں کے لئے بنایا گیا ہے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ ترقی حاصل کریں اور ان کے علم، شعور اور کائنات شناسی میں اضافہ ہو۔ با الفاظ دیگر بنی نوع بشر کے لئے ایک ایسا روڈ میپ ہونا چاہیے جو اس کی آئندہ زندگی سے منطبق ہو اور وہ یہ نہ کہ سکے کہ میں اس خدا کے دین کو کیسے قبول کروں جو میری آج کی ضرورت کو پورا نہیں کرسکتا۔ اللہ نے ایک ایسا دین بھیجا کہ جس پر انسان ہر زمانہ کے تقاضہ کے مطابق عمل کر کے کمال حاصل کر سکے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو دین کامل نہ ہوتا۔
علامہ امین شہیدی نے سیکولرازم اور لبرل ازم پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم مطالعہ کریں تو اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ سیکولرازم اور لبرل ازم دین کو انسان کی ذاتی اور انفرادی ضرورت کے دائرہ میں محدود کر کے اس کی اجتماعی زندگی سے نکال دیتے ہیں۔ وہ ہمارے ماضی کی مثالیں پیش کر کے اپنا نظریہ درست ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اگر ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ کی سیرت، قرآن کی تعلیمات اور نبی و آل نبی سے منقول احادیث کو ملاحظہ کریں تو وہ احادیث و تعلیمات ایسا روڈ میپ دیتی ہیں جن کا تعلق زمانہ آخر سے بھی ہے۔ لہذا جہاں عبادات، کسب حلال، تقوی، جہاد فی سبیل اللہ، اخلاقی برائیوں سے بچنے، ہوا و ہوس کی قید سے نکلنے اور طہارتِ روح کا حکم دیا گیا ہے وہیں ان احکامات کی تشریحات بھی سامنے آئیں اور انبیاء علیہم السلام کی زندگی سے ان پر عمل پیرا ہونے کے نمونے بھی پیش کیے گئے ہیں۔ حضرت عیسی، حضرت موسی اور حضرت ابراہیم علیہم السلام سے لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ تک متعدد مواقع اور سیرت کے ایسے پہلو بیان کیے گئے ہیں، جن کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ تمام انبیاء کی تعلیمات ایک جیسی تھیں۔ اللہ کی مشیت کے مطابق بنائے گئے روڈ میپ کو سمجھنے والے بڑی آسانی کے ساتھ اپنے زمانے کے تقاضوں کے مطابق دینی تعلیمات پر عمل کر کے اس مقامِ کمال تک پہنچ سکتے ہیں جس کے لئے اللہ نے انہیں خلق فرمایا ہے۔