بھارت میں اسلامی مقدسات اور نبی کریم (ص) کی شان میں گستاخی کے خلاف امن پسند ہندو بھی میدان میں آگئے ہیں اور انھوں نے اسلامی مقدسات کی توہین کرنے والے بی جے پی کے شرپسند رہنماؤں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔ ادھر ہندوستان کے لاکھوں مسلمان بھی سراپا احتجاج کررہے ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی نے ہندوستانی ذرائع کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ بھارت میں اسلامی مقدسات اور نبی کریم (ص) کی شان میں گستاخی کے خلاف امن پسند ہندو بھی میدان میں آگئے ہیں اور انھوں نے اسلامی مقدسات کی توہین کرنے والے بی جے پی کے شرپسند رہنماؤں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔ ادھر ہندوستان کے لاکھوں مسلمان بھی سراپا احتجاج کررہے ہیں۔

بھارت میں ایک طرف لاکھوں مسلمان سراپا احتجاج ہیں  وہیں بڑی تعداد میں پراگریسوسوچ رکھنے والے ہندوبھی بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کی سابق شرپسند رہنما نوپورشرمااورنوین جندل کے بیانات کی مذمت اوران کی فوری گرفتاری کامطالبہ کررہے ہیں۔

دہلی یونیورسٹی کے پروفیسراپوروانند کے مطابق بھارت میں مسلمانوں کیخلاف جونفرت پیداکی جارہی ہے اس کا سلسلہ توکئی برسوں سے جاری ہے لیکن بی جے پی کی حکومت برسراقتدارآئی تو پھر آرایس ایس کے ذریعے ایسے اقدامات اٹھائے گئے جن سے مسلمانوں کو تکلیف پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔

انہوں نے بتایا کہ خاص طورپرمسلمانوں کے مذہبی جذبات کومجروح کرنے کے لئے کبھی مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن پاک کی بے حرمتی کی گئی توکبھی پیغمبراسلام (ص) کی ذات کونشانہ بنایا گیا، ہندوستان میں مسلمانوں کی تضحیک کو معمول بنا دیا گیا ہے جس کے لیے شدت پسند ہندوخاص طور پرآرایس ایس والوں کو کھلی اجازت ہے۔

پروفیسراپوروانند کا کہنا تھا کہ جب نوپورشرما نے یہ گستاخانہ حرکت کی تھی حکومت کوچاہیے تھا کہ فوری ان کیخلاف کارروائی کرتی لیکن حکومت نے ٹال مٹول سے کام لیا اورجب مسلمانوں ملکوں کی طرف سے احتجاج سامنے آیا تو پھرایف آئی آرکاٹی گئی لیکن نوپورشرما اور نوین جندل کوابھی تک گرفتارنہیں کیا گیا جس سے ملک کے اندراحتجاج کا سلسلہ شروع ہوا جو اب زور پکڑتا جارہا ہے اور ایسی صورت میں حکومت مظاہرین کو گرفتار کرکے جلتی پرتیل کا ڈالنے کاکام کررہی ہے۔

پروفیسراپوروانند نے کہا کہ گستاخانہ بیان دینے اور اُس پر ڈھٹائی دکھانے کے بعد دنیا بھرمیں بھارت کی ساکھ متاثرہوئی ہے، بنارس کی گیان واپی مسجد کا معاملہ بھی چل رہا ہے۔انہوں نے کہا جولوگ یہ سمجھتے تھے کہ 1991 میں جب سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے حوالے سے فیصلہ دیا تھا اس فیصلے سے ہی تنازع کی ایک نئی راہ کھول دی گئی تھی حالانکہ 1991 میں یہ ایکٹ منظورہوچکا ہے کہ 15 اگست 1947 کو ہندوستان میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں کی جوعبادت گاہیں تھیں ان کا درجہ (اسٹیٹس) تبدیل نہیں کیا جائے گا، اب اس قانون کے ہوتے ہوئے پھرکس طرح ایک قدیم اورتاریخی گیان واپی مسجد بارے یہ کہاجارہا ہے کہ یہاں شیومندرتھا اورایک فوارے کو ہندوشیولنگ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

نوجوان بھارتی سماجی کارکن راہول کپورکا کہنا ہے کہ قانون نافذ کرنیوالے ادارے کہتے ہیں کہ نوپورشرما اورنوین جندل کوگرفتارکرنے کا فیصلہ حکومت کو کرنا ہے،میرا پولیس انتظامیہ سے سوال ہے کہ کیا آپ کا کام صرف مظاہرین پرفائرنگ کرنا، انہیں گرفتارکرنا اوران کے گھروں کومسمارکرناہے؟۔

انہوں نے کہا کہ سماجی کارکن آفرین فاطمہ کا گھرمسمارکردیاگیاہے، سینکڑوں مسلمانوں کیخلاف مقدمات درج کرکے گرفتارکیا گیا جبکہ احتجاج کاسلسلہ بڑھتاجارہا ہے۔

بھارت کے نوجوان سماجی رہنما روی نتیش اوردیویکا متل بھی بی جے پی رہنماؤں کے گستاخانہ بیانات کی مذمت کرتے ہوئے مسلمانوں کی حمایت میں کھڑے ہیں، انہوں نے بتایا کہ ہزاروں  ہندو، سکھ ،مسلم ،مسیحی نوجوان اس وقت مسلمانوں کے شانہ بشانہ ہیں اور وہ بی جے پی رہنماؤں کی گرفتاری کا مطالبہ کررہے ہیں، اگرملک میں لگنے والی اس آگ کوروکانہ گیا تو پھر ملک بھرمیں مذہب کے نام پرایسی جنگ شروع ہوگی جسے روکنا بہت ہی مشکل ہوجائے گا۔