امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی مبارک زندگی اور سیرت ولادت سے لے کر شہادت تک خوشنودی خدا اور رضائے الہی میں بسر ہوئی۔مولائے کائنات خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے اور مسجد کوفہ میں آپ کی شہادت واقع ہوئی۔

مہر خبررساں ایجنسی نے تاریخ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی مبارک زندگی اور سیرت ولادت سے لے کر شہادت تک خوشنودی خدا اور رضائے الہی میں بسر ہوئی۔مولائے کائنات خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے اور مسجد کوفہ میں آپ کی شہادت واقع ہوئی۔

 آپ (ع) کی پیشانی ایک دن بھی غیر خدا کے سامنے نہیں جھکی۔ آپ  ان پانچ ہستیوں میں سے ایک ہیں کہ جن کی طہارت و پاکیزگی کی گواہی کے لئے قرآن مجید میں آیۂ تطہیر نازل ہوئی ہے۔ نیز قرآن مجید میں اسکے علاوہ بھی متعدد آیات حضرت علی (ع)  کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔ جن میں سے آیہ تبلیغ، آیہ اکمال دین، آیہ ولایت، آیہ اولی الامر اور آیہ مباہلہ قابل ذکر ہیں۔

امیر المومنین ؑ حضرت علی(ع) کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ آپ ؑ کی ولادت خانہ کعبہ میں ہوئی۔

امیر المومنین ؑ حضرت امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو رسول اللہ ؐ سے اتنی عقیدت تھی کہ جس طرح آپ کی دنیا میں ظاہری آمد سے پہلے آپ کے والدین نے ہر لمحہ رسول اللہ ؐ  کا ساتھ دے کر نصرت و حفاظت کا فریضہ سر انجام دیا اسی طرح امیر المومنین علیہ السلام نے بھی ہر لمحہ اور ہر وقت دشمنان خدا و دشمنان رسول (ص)کے مقابلے میں رسول اللہ ؐ کی حمایت اور حفاظت و دفاع کا فریضہ انجام دیا۔

خود کو رسول اللہ ؐ  کا غلام کہہ کر مولائے متقیان امیر المومنین ؑ  فخر کیا کرتے تھے جبکہ خود رسول  اکرم  نے آپ کو دین و دنیا میں اپنا بھائی قرار دیا تھا۔ حضرت علی (ع) فرماتے تھے کہ رسول اللہ (ص)  نے مجھ کو علم کے ہزار باب تعلیم فرمائے اور میں نے ہر باب سے ہزاز ہزار باب مزید سیکھ لئے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ؐ  نے خود کو علم و حکمت کا شہر اور حضرت علی (ع) کو اس شہر علم کا دروازہ قرار دیا۔ اور پھر کہا کہ جو شخص علم و حکمت حاصل کرنا چاہے اسے دروازے سے آنا پڑے گا۔

رسول اللہ (ص) نے اپنے دل کی ٹھنڈک اور اکلوتی بیٹی حضرت فاطمۃ زہرا سلام اللہ علیہا کا نکاح فرمان خداوندی سے حضرت علی ؑسے کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اگر علی ؑنہ ہوتے تو کائنات میں خاتون جنت فاطمۃ زہرا سلام اللہ علیہا کا کوئی ہمسراورکفو نہ ہوتا۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت علی ؑو حضرت فاطمہ زہرا (س) کو ایک دوسرے کے لئے خلق فرمایا۔ اور پھر دین مبین اسلام کی خدمت و بقا کی خاطر اللہ تعالی نے حضرت علی ؑاور حضرت زہرا(س)کو امام حسن و امام حسین اور جناب زینب اور بی بی ام کلثوم (سلام اللہ علیہم) کی صورت میں اولاد عطا کی۔

قرآن و سیرت اور احادیث رسول (ص) میں امیر المومنین حضرت علی ؑاور اہلبیت ؑکی شان و عظمت کی وضاحت کے باوجود پتہ نہیں کیوں رسول اللہ (ص) کے وصال کے فوراً بعد دشمنان خدا نے اہلبیت رسول (ص) بالخصوص حضرت بی بی فاطمہ زہرا (س) اور امیرالمومنین ؑپر ظلم و جبر کے پہاڑ ڈھائے حتٰی کہ خاتون جنت (س) زوجہ امیرالمومنین ؑجناب فاطمہ بتول سلام اللہ علیہ کو یہاں تک فریاد کرنا پڑی۔ کہ اے میرے بابا (ص) آپکے جانے کے بعد مجھ پر ایسی مصیبتیں پڑیں کہ اگر وہ روشن دنوں پر پڑتیں تو وہ بھی تاریک راتوں میں تبدیل ہو جاتے۔ اور پھر اسکے بعد بھی اہلبیت اطہار ؑو آل رسول (ص) پر اسلام کے لبادے میں موجود دشمنان اسلام خوارج، بنی امیہ اور بنی عباس کے مظالم کا سلسلہ جاری رہا۔

رسول اللہ (ص) کی حضرت علی کے بارے میں واضح حدیث ہے کہ علی ؑحق کے ساتھ ہے اور حق علی ؑکے ساتھ، خدایا حق کا رخ ادھر موڑ دے جس طرف علی ؑجائے، اس صریح حدیث کے باوجود بھی دشمنان دین اسلام نے امیرالمومنین ؑکو اتنی اذیتیں دے کر مظالم کا نشانہ بنایا کہ جس کی نظیر ملنا شاید مشکل ہو۔ رسول اللہ (ص) کے وصال کے بعد ایک مرتبہ حضرت زہرا (س) نے حضرت علی ؑسے پوچھا کہ اے ابو الحسن ؑسنا ہے، کوئی آپ کو سلام نہیں کرتا۔ تو حضرت علی نے مظلومیت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا :بات اس سے آگے نکل چکی ہے، اب حالت یہ ہے کہ سلام تو دور کی بات، جب میں سلام کرتا ہوں تو کوئی جواب تک نہیں دیتا۔

خوارج کے فتنے نے امیر المومنین حضرت علی ؑ(ع) کے مقابلے میں سر اٹھایا اور یہاں تک کہ اس فتنے نے خلیفہ رسول (ص) امیر المومنین ؑکو مسجد و محراب میں دوران عبادت شہید کر دیا۔ نماز، روزہ اور دوسری تمام عبادات کی ادائیگی کے علاوہ خوارج میں سے ایک بڑی تعداد حافظان قرآن کی تھی، مگر حال یہ تھا کہ وہ اپنے علاوہ باقی تمام مسلمانوں کو کافر قرار دے کر اسلام کے لبادے میں ظلم و جبر اور عوام الناس پر دہشت گردی کا بازار گرم کرکے یہ شعار اور نعرہ بلند کرتے تھے کہ لا حکم الا للہ۔ یعنی حکومت صرف اللہ کے لئے ثابت ہے۔

حضرت علی ؑ(ع) خوارج کے اس نعرے کے بارے میں فرماتے تھے کہ یہ نعرہ اور شعار تو برحق ہے لیکن اس کے پیچھے خوارج کے مقاصد باطل اور فساد پر مبنی ہیں۔ انہی خوارج کی طرح آج بھی اسلام کے نام اور لبادے میں موجود القاعدہ ، داعش اور طالبان کے غیر انسانی و غیر اسلامی افعال و کردار اور دہشت گردی پر نظر دوڑائیں تو دہشت گرد تنظیمیں بھی خوارج کی تصویر پیش کررہی ہیں۔

اسلام کا لبادہ پہن کر اور منبر رسول پر بیٹھ کر مساجد میں حضرت علی علیہ السلام کے خلاف خطبے دیئے جاتے تھے اور سب و شتم بھی کیا جاتا تھا۔

امیر المومنین علیہ السلام اور اہلبیت اطہار(ع) پر لعن طعن کے لئے کئی ہزار مساجد کے منبر و محراب درہم و دینار سے خریدے گئے تھے۔ جہاں سے باقاعدہ جمعہ کے خطبات اور دیگر مواقع پر امیر المومنین علی علیہ السلام اور اولاد رسول (ص) پر لعن طعن کی جاتی تھی۔ ظلم کی انتہا دیکھئے کہ جب انیس رمضان کی صبح مسجد کوفہ میں نماز فجر کے لئے آنے والے امیر المومنین حضرت امام علی ؑپر اس وقت کے شقی ترین انسان ابن ملجم لعین نے سجدے میں وار کرکے مسجد کوفہ کے محراب کو خون میں تر کر دیا۔ اور جب یہ خبر بنی امیہ کے پایہ تخت شام تک پہنچی کہ امیر المومنین  علی (ع) کو مسجد کوفہ میں شہید کردیا گیا، تو لوگ ایک دوسرے سے تعجب سے پوچھنے لگے کہ علی (ع) مسجد میں کیا کر رہے تھے؟ جب بتایا گیا کہ نماز فجر پڑھنےگئے تھے تو لوگ اور زیادہ تعجب سے پوچھنے لگے کہ کیا علی ؑنماز پڑھتے تھے؟  یہ تھا اسلام کے لبادے میں مسلط خوارج و بنی امیہ کے پروپیگنڈے اور اس زمانے کے باطل ذرائع ابلاغ کا کردار کہ اپنے ناجائز مفادات اور اقتدار کے حصول کے لئے خلیفہ وقت امیر المومنین ؑعلی ابن ابی طالب علیہ السلام کے حوالے سے اتنا غلیظ اور گمراہ کن منفی پروپیگنڈہ کر رکھا تھا کہ زمانے کی متقی ترین ہستی کو  نعوذ باللہ بے نمازی اور بے دین قرار دے کر عوام میں مشہور کر دیا گیا تھا۔ اس سے خوارج اور بنی امیہ کی اسلام اور اہلبیت اطہار کے خلاف شدید دشمنی اور بغض و عداوت کا پتہ چلتا ہے۔

انیس رمضان نماز فجر کے وقت خوارج و بنی امیہ کی زہر میں ڈوبی تلوار کے زخم کے بعد مسجد کوفہ میں امیر المومنین ؑنے یہ جملہ ادا کیا۔" فزت و رب الکعبہ " (رب کعبہ کی قسم علی ؑکامیاب ہو گیا)، اور اسکے دو دن بعد اکیس رمضان المبارک کو امیر المومنین ؑحضرت امام علی علیہ السلام شہید ہو گئے اور یوں علی ؑکا ظاہری سفر خانہ کعبہ میں ولادت سے شروع ہو کر مسجد کوفہ میں شہادت پر اختتام پذير ہوگیا لیکن اسلام اور پیغمبر اسلام کی حفاظت کے سلسلے میں آپ کی شجاعت ، حلم و بردباری کے کارنامے تاریخ کے درخشاں صفحات پر موجود ہیں۔