مہر خبررساں ایجنسی کی اردو سروس کے مطابق یوکرائن کے خلاف روس کے فوجی آپریشن پر مغربی ممالک نے روس کے خلاف سخت موقف اختیار کرتے ہوئے پابندیاں عائد کی ہیں تاہم اس اقدام کی وجہ سے مغربی ممالک کی منافقت کا پردہ فاش ہوگیا ہے کیونکہ امریکہ نے بہت سے ممالک پر حملہ کیا لیکن اس کے خلاف کبھی پابندیاں عائد نہیں کی گئیں۔ یوکرائن کے مسئلہ نے مغربی ممالک کے چہرے سے منافقت کا پردہ اتار دیا ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک نے افغانستان، عراق، لیبیا، یمن، فلسطین اور شام پر ظلم و جبر اور بے رحمی کے ساتھ قبضہ کیااور لاکھوں بے گناہ افراد کا دل کھول کر خون بہایا ، نیٹو ممالک 2001ء سے دنیا کے مختلف ملکوں پر حملے کرکے تباہی پھیلاتے رہے ہیں ان پر کسی نے پابندیاں عائد نہیں کیں۔ لیبیا کی حکومت کو نیٹو کے رکن ممالک نے گرا کر کرنل قذافی کو قتل کردیا ، کسی نے نیٹو پر پابندی عائد نہیں کی، جبکہ روس نیٹو کو توسیع پسندانہ عزائم کے حوالے سے گزشتہ ایک دہائی سے خبردار کرتا رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق 2007ء میں مونخ سکیورٹی کانفرنس میں روسی صدر نے واضح طور پر وہاں موجود طاقتور ممالک سے سوال کیا تھا کہ روس کی سرحدوں پر عسکری انفرا اسٹرکچر لگانے کی آخر ضرورت کیا ہے، کیا کسی کے پاس اس سوال کا جواب ہے؟ بعد میں اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ روسی سرحد پر عسکری اثاثہ جات جمع کرنا کسی بھی طرح سے انفرادی ریاستوں کا جمہوری فیصلہ نہیں ہو سکتا۔
روسی صدر کے انتباہ پر کسی نے توجہ نہیں کی اور نیٹو نے سابق سویت یونین سے الگ ہونے والے چار ممالک " البانیہ، کروشیا، مونٹی نیگرو اور شمالی مقدونیہ" کو رکنیت دیدی۔ اگر یہی کام روس بھی جنوبی امریکی ریاستوں میں انجام دیتا اور انھیں اپنا حصہ بناتا تو امریکہ کو کتنی مرچیں لگتیں اور وہ کتنا شور اور واویلا مچاتا۔
روس کیلئے سب سے پریشان کن وقت وہ تھا جب امریکہ اور نیٹو نے یوکرائن میں جدید ترین اسلحہ جمع کرکے وہاں انبار لگا دیا اور یوکرائن کو شہ دی کہ وہ نیٹو کی رکنیت حاصل کرے۔ یہی وہ وقت تھا جب یوکرائن سے روس کو اپنی بقاء کا خطرہ لاحق ہوگیا۔
دسمبر 2021ء میں جب صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تو روس نے سکیورٹی کی ضمانت کیلئے ایک معاہدہ امریکہ اور نیٹو ممالک کو پیش کیا جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ مشرق کی جانب نیٹو کی توسیع روک دی جائے اور یوکرائن سمیت دیگر ممالک کو نیٹو کی رکنیت نہ دی جائے۔
اس دستاویز میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا تھا کہ نیٹو یوکرائن سمیت مشرق کی جانب دیگر ریاستوں اور وسط ایشیائی ریاستوں میں کوئی فوجی مشقیں یا دیگر سرگرمیاں نہیں کرے گا۔ ایک مرتبہ پھر روس کی تجاویز کو مسترد کر دیاگیا۔
اگر روس نے یوکرائن میں غلط کیا تو امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک گزشتہ دو دہائیوں سے کیا کرتے رہے ہیں؟ مثال کے طور پر عراق جنگ کو ہی دیکھ لیں، عراق پر حملے کے بعد کے نتائج میں مغربی میڈیا خود اعتراف کرتا ہے کہ یہ جنگ انٹیلی جنس اطلاع کی ناکامی کا نتیجہ تھی، امریکہ اور اتحادیوں نے بلا اشتعال عراق پر حملہ کیا اور لاکھوں افراد کو بے رحمانہ طور پر قتل کردیا۔ عراق کے پاس ایٹمی ہتھیار موجود نہیں تھے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ یوکرائن کے نیٹو کے رکن بننے کی صورت میں روس کا وجود خطرے میں پڑ جائےگا کیونکہ اس صورت ميں نیٹو کا اگلا نشانہ خود روس ہوگا۔ روس نے اپنے تحفظ کے لئے یوکرائن میں فوجی آپریشن کا آغاز کیا اور یوکرائن میں امریکہ اور نیٹو کے ہتھیاروں کے انباروں کو تباہ کرکے واضح کردیا کہ روس امریکہ اور نیٹو کی توسیع پسندانہ پالیسی کو کبھی قبول نہیں کرےگا۔ روس کے وزير خارجہ سرگئی لاورو کا کہنا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ امریکہ اور نیٹو کے فوجی دنیا بھر سے اپنے ملکوں کی سرحدوں میں واپس چلے جائیں اور امریکہ کو دوسرے ممالک میں عدم استحکام پیدا کرکے اپنی اجارہ داری کو ختم کرنا چاہیے۔ روس نے واضح کردیا کہ تیسری عالمی جنگ تباہ کن ایٹمی جنگ ہوسکتی ہے جس کے سنگین اور تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور نیٹو یوکرائن میں اپنی فوج بھیجنے سے گھبرا رہے ہیں اور وہ یوکرآئن کو صرف ہتھیاروں کی مدد فراہم کرنے کی یقین دہانی کرا رہے ہیں۔ یوکرائن پر روس کے فوجی آپریشن نے امریکہ اور مغربی ممالک کے منافقانہ چہرے کو بے نقاب کرتے ہوئے یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ امریکہ اور نیٹو اپنے اتحادیوں کو تنہا بھی چھوڑ سکتے ہیں، لہذا امریکہ اور نیٹو پر اعتماد کرنے والے عرب اور دیگر ممالک کو یوکرائن کے مسئلہ سے سبق سیکھنا چاہیے اور امریکہ پر اعتماد نہيں کرنا چاہیے۔
................................................
تحریر : سید ذاکر حسین جعفری