مہر خبررساں ایجنسی نے تاریخ اسلام کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام 15 رجب سن 30 عام الفیل مکہ مکرمہ میں خانہ خدا کے اندر پیدا ہوئے۔ اللہ تعالی نے حضرت علی (ع) کی ولادت با سعادت کے سلسلے میں خاص اہتمام کیا اور اپنے گھر کو حضرت علی (ع) کا زچہ خانہ بنا دیا۔ جب حضرت علی (ع) کی ولادت کا وقت قریب آیا، تو آپ کی والدہ گرامی حضرت فاطمہ بنت اسد خانہ کعبہ کے قریب آئیں اور اپنے جسم اقدس کو دیوار کعبہ سے مس کرکے عرض کیا: پروردگارا! میں تجھ پر، تیرے انبیاء پر، تیری نازل شدہ کتابوں پر اور خانہ کعبہ کی تعمیر کرنے والے اپنے جد حضرت ابراہیم کے کلام پر پختہ ایمان رکھتی ہوں۔
اے اللہ! تجھے ابراہیم کا واسطہ اور میرے شکم میں موجود اس بچے کے حق کا واسطہ،اس کی ولادت کو میرے لئے آسان فرما۔
حضرت فاطمہ بنت اسد کی دعا مستجاب ہوئی اور خانہ کعبہ کی جنوب مشرقی دیوار حضرت عباس بن مطلب اور یزید بن تعف کی نظروں کے سامنے شگافتہ ہوئی، حضرت فاطمہ بنت اسد بے خوف و خطر کعبہ میں داخل ہوئیں اور دیوار دوبارہ مل گئی۔ فاطمہ بنت اسد تین دن تک اللہ تعالی کے گھر مہمان رہیں، حضرت علی (ع) 13 رجب سن 30 عام الفیل کو بیت اللہ الحرام میں پیدا ہوئے، یہی وجہ ہے کہ آپ کو مولود کعبہ کہا جاتا ہے۔
جب فاطمہ بنت اسد نے کعبہ سے باہر آنا چاہا تو دیوار دوبارہ شگافتہ ہوئی اور حضرت فاطمہ بنت اسد باہر تشریف لائیں اور فر مایا : میں نے غیب سے یہ آواز سنی ہے کہ اس بچے کا نام " علی" رکھنا۔
پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی (ص) نے بھی حضرت علی (ع) کا نام اللہ تعالی کے نام پر علی (ع) رکھا۔
حضرت علی (ع) پہلی ہستی ہیں جنھوں نے پیغمبر اسلام کی رسالت کی تصدیق کی، ان پر ایمان لائے اور ان کے پیچھے نماز ادا کی۔ حضرت علی (ع) ہمیشہ اللہ تعالی کی عبادت اور آنحضور (ص)کی اطاعت میں مصروف اور سرگرم رہے۔ بدر و احد اور خیبر و خندق کے معرکوں کے فاتح رہے مختلف میدانوں میں شاندار کار کردگی کی بنا پر پیغمبر اسلام سے اعزاز حاصل کرتے رہے اور شب ہجرت بستر رسول پر آرام فرما کر اللہ تعالی کی رضا اور خوشنودی کو حاصل کرلیا اور قسیم الجنہ والنار کے عہدے پر فائز ہوگئے۔
حضرت علی (ع) زندگی بھر پیغمبر اسلام کے خلیفہ و جانشین رہے اور غدیر خم میں پیغمبر اسلام نے انھیں اعلانیہ طور اپنا جانشین اور خلیفہ مقرر کردیا، اگر آج تمام مسلمان نبی کریم (ع) کے مقرر کردہ 12خلفاء کو قبول کرلیں تو مسلمان اپنی کھوئی ہوئی عزت کو واپس حاصل کرسکتے ہیں۔ آنحضور(ص) کے 12 خلفاء میں پہلا خلیفہ بھی محمد، اوسط بھی محمد، آخر بھی محمد اور سب کے سب محمد اور آل رسول ہیں۔
حضرت علی علیہ السّلام کے امتیازی صفات اور خدمات کی بنا پر رسول ان کی بہت عزت کرتے تھے او آپنے قول اور فعل سے ان کی خوبیوں کو ظاہر کرتے رہتے تھے کبھی یہ کہتے تھے کہ " علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں " .کبھی یہ کہا کہ " میں علم کاشہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے" ، کبھی یہ کہا " آپ سب میں بہترین فیصلہ کرنے والا علی ہے" کبھی یہ کہا کہ " علی کومجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ علیہ السّلام سے تھی "، کبھی یہ کہا کہ " علی مجھ سے وہ تعلق رکھتے ہیں جو روح کو جسم سے یاسر کو بدن سے ہوتا ہے"۔
کبھی یہ کہ " وہ خدا اور رسول کے سب سے زیادہ محبوب ہیں " ، یہاں تک کہ مباہلہ کے واقعہ میں علی علیہ السّلام کو نفسِ رسول کاخطاب ملا. عملی اعزاز یہ تھا کہ جب مسجد کے صحن میں کھلنے والے سب کے دروازے بند ہوئے تو علی کادروازہ کھلا رکھا گیا جب مہاجرین وانصار میں بھائی کا رشتہ قائم کیا گیا تو علی علیہ السّلام کو پیغمبر نے آپنا بھائی قرار دیا۔ اور سب سے آخر میں غدیر خم کے میدان میں مسلمانوں کے مجمع میں علی علیہ السّلام کو اپنے ہاتھوں پر بلند کر کے یہ اعلان فرما دیا کہ جس طرح میں تم سب کا حاکم اور سرپرست ہوں اسی طرح علی علیہ السّلام، تم سب کے سرپرست اور حاکم ہیں ۔ یہ اتنا بڑا اعزاز ہے کہ تمام مسلمانوں نے علی علیہ السّلام کو مبارک باد دی اور سب نے سمجھ لیا کہ پیغمبراسلام (ص) نے علی علیہ السّلام کی ولی عہدی اور جانشینی کااعلان کردیا ہے۔