اقوام متحدہ نے افغانستان میں غذائی قلت سے لاکھوں بچوں کی ہلاکتوں کا خدشہ ظاہر کردیا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی نے رائٹرز کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ اقوام متحدہ نے افغانستان میں غذائی قلت سے لاکھوں بچوں کی ہلاکتوں کا خدشہ ظاہر کردیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام ( ڈبلیو ایف پی) کے مطابق افغانستان کی نصف سے زائد آبادی غذائی عدم تحفظ کا سامنا کرتے ہوئے قحط کی جانب بڑھ رہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق اقوام متحدہ کے ایک سینئر اعلی عہدے دار کا کہنا ہے کہ انسانی ہمدری کی بنیاد پر افغانستان کے منجمد فنڈز کو فوری جاری کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر فوری اور ضروری اقدامات نہیں کیے گئے توبچوں سمیت لاکھوں افغان شہری قحط سے ہلاک ہوسکتے ہیں۔

ورلڈ فوڈ پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈیوڈ بیسلے نے کہا ہے کہ افغانستان کی 2 کروڑ 28 لاکھ آبادی جو کہ کل آبادی کا نصف سے زائد ہے، غذائی قلت اور عدم تحفظ کی وجہ سے قحط سالی کا شکار ہونے والے ہیں۔ جب کہ 2 ماہ قبل تک یہ تعداد 1 کروڑ 40 لاکھ تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان میں امداد کے فقدان اور معاشی بدحالی سے صورت حال دن بہ دن بدترین ہوتی جا رہی ہے، بچے مر رہے ہیں اورعوام فاقہ کشی کرنے پر مجبور ہے۔

برسیلے کا کہنا تھا کہ یہ  تباہی ہماری توقع کے برعکس بہت زیادہ تیزی سے ہوسکتی ہے اور کابل کی معاشی تباہی سب کی توقعات کے برعکس بہت زیادہ رفتار سے ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ترقیاتی کاموں کے لیے مختص ڈالر کو انسانی امداد کے لیے دوبارہ استعمال کیا جانا چاہئے جس طرح دوسری اقوام کے ساتھ کیا گیا ہے یا پھر منجمند کیے گئے فنڈز کو کسی ایجنسی کے ذریعے جاری کرنا چاہیے، اگر ہم نے فنڈز جاری کردیے تو تب ہی افغان عوام زندہ رہ سکتے ہیں۔ جب کہ اقوام متحدہ کی فوڈ ایجنسی کو تقریبا 23 ملین افراد کو جزوی طور پر کھانا فراہم کرنے کے لیے ماہانہ 220 ملین ڈالر کی ضرورت ہے۔

واضح رہے کہ رواں سال اگست میں طالبان کے بر سر اقتدار آنے کے بعد مغربی حکومتوں نے امداد پر انحصار کرنے والی افغان معیشت کے نہ صرف اربوں ڈالر کے عطیات روک دیئے ہیں، بلکہ بیرون ملک موجود اثاثے بھی منجمد کردیے ہیں۔ جس کے بعد سے افغانستان میں معاشی بحران دن بہ دن بڑھ رہا ہے۔