مہر خبررساں ایجنسی نے الجزیرہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ عالمی دباؤ کے باوجود تاحال طالبان حکومت نے لڑکیوں کے اسکول کھولنے سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے جس سے طالبات کی تعلیم پر مستقل پابندی کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق افغانستان میں طالبان حکومت کو قائم ہوئے دو مہینے ہوگئے ہیں لیکن عالمی دباؤ کے باوجود تاحال طالبات کے اسکول بند ہیں۔
طالبان کے وزیر تعلیم کا کہنا ہے کہ طالبات کے اسکولوں کی عارضی بندش کا فیصلہ تاحال برقرار ہے۔ طالبان حکومت نے لڑکیوں کے اسکول کھولنے کے لیے چند اقدامات اُٹھانے کا وعدہ تو کیا تھا تاہم اس پر عمل درآمد کی رفتار نہ ہونے کے برابر ہے اور عالمی دباؤ کو بھی خاطر میں نہیں لایا گیا جس سے لڑکیوں کی تعلیم پر مستقل طور پر پابندی عائد ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔
اس سے قبل نائب وزیر اطلاعات ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ ملک میں لڑکیوں کی علیحدہ تعلیم کے انتظامات مؤثر نہیں۔ ہماری حکومت اس پر مرحلہ وار کام کر رہی ہے۔
ذبیح اللہ مجاہد نے یہ بھی کہا تھا کہ خواتین کو ملازمت اور تعلیم کی اجازت دیں گے لیکن اس کے لیے سکیورٹی اور ضابطہ اخلاق ترتیب دینا ابھی باقی ہے۔ تاہم حکومت نے نہ تو اسکول کھولنے کا لائحہ عمل اور نہ ہی ٹائم فریم دیا تھا۔