افغانستان کےسابق صدر اشرف غنی اور اس سے وابستہ عناصر کی حالیہ برسون میں ایران مخالف پالیساں اور ایران و افغان قوموں کے درمیان اختلاف اور خلیج پیدا کرنے کی کوششیں بالکل واضح اور نمایاں تھیں جو آخر کار کابل سے اس کے فرار پر منتج ہوئیں۔

مہر خبررساں ایجنسی کے سیاسی امور کے نامہ نگار کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کےسابق صدر اشرف غنی اور اس سے وابستہ عناصر کی حالیہ برسون میں ایران مخالف پالیساں اور ایران و افغان قوموں کے درمیان اختلاف اور خلیج پیدا کرنے کی کوششیں بالکل واضح اور نمایاں تھیں جو آخر کار کابل سے اس کے فرار پر منتج ہوئیں۔

افغانستان کے سابق صدر جب کابل کے جنوب میں اپنا بچپنا گزار رہے تھے تو اس وقت ایران میں محمد مصدق وزیر اعظم تھے اور اسے بھی امریکہ پر انتہائی اعتماد اور بھروسہ تھا لیکن اس کے باوجود اس کی حکومت تین دن کے اندر ختم ہوگئی۔ محمد مصدق نے غلط راستہ اختیار کیا لیکن اسے وطن سے محبت تھی اور وہ اقتدار کے خاتمہ کے بعد بھی تہران میں ہی رہے۔ اشرف غنی نےبھی غلط پالیسیاں اختیار کیں، امریکی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی۔ افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی کو افغان عوام کا کوئی زيادہ اعتماد بھی حاصل نہیں تھا اس نے پشتون لفظ کی آڑ میں اقتدار تک پہنچنے کی بھر پور کوشش کی اور ایک دو بار ناکامی کے باوجود امریکی حمایت میں اقتدار تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔

اشرف غنی نے 1388 شمسی میں پہلی بار افغانستان کے صدارتی انتخابات میں شرکت کی اور صرف 3 فیصد آراء حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اسے افغان عوام میں کوئی زيادہ مقبولیت نہیں تھی ۔ اشرف غنی کو حامد کرزائی کی صدارت کے دوسرے دور میں غیر ملکی فوجیوں سے اقتدار افغان فوجیوں کو منتقل کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اشرف غنی نے 2014 کے انتخابات میں بھی شرکت کی اور اس بار وہ 37 فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے جبکہ اس کے حریف عبداللہ عبداللہ دوسرے نمبر پر رہے ، سیاسی اختلاف پیدا ہوگیا اور امریکی وزير خارجہ جان کیری کی کوشش سے اشرف غنی صدارتی اقتدار تک پہنچ گئے۔

اشرف غنی نے اپنے اقتدار میں فارسی زبان پر بھی کاری ضرب وارد کرنے کی کوشش کی اور اس نے ہمیشہ اپنے حریفوں کو اعلی عہدوں سے برطرف کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ اس نے سابقہ مجاہدین کو نظر انداز کیا جن میں اسماعیل خان اور احمد مسعود بھی شامل ہیں۔

اسی سلسلے میں سیاسی امور کے ماہر نوذر شفیعی نے مہر خبررساں ایجنسی کے نامہ نگار سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عوامی سطح پر اشرف غنی کو زیادہ مقبولیت حاصل نہیں تھی، اسے صرف امریکہ کی پشت پناہی حاصل تھی اور اس نے پشتون قوم کا نام استعمال کرکے اقتدار حاصل کیا اور اس نے افغانستان کی داخلی زبانوں یعنی فارسی اور پشتون میں بھی دو دستگی ایجاد کرنے کی بھر پورکوشش کی۔ نوذر شفیعی نے کہا کہ اشرف غنی نے فارسی زبان کو حذف کرنے اور اس کی جگہ پشتون زبان کو سرکاری زبان رایج کرنے کی بہت کوشش کی۔

ایران کے سابق سفارتکار عبد الرضا فرجی راد کا کہنا ہے کہ اشرف غنی سے وابستہ عناصر نے ایران کے خلاف معاندانہ موقف اختیار کیا اور اپنی حکومت کے خاتمہ  تک ایران کی طرف سے افغانستان میں امن اور صلح کی کوششوں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔

آخر کارطالبان کابل تک پہنچ گئے اور انھوں نے کابل کا محاصرہ کرلیا اور اشرف غنی کو اپنی غلط پالیسیوں کی بنا پر افغانستان سے کئي ملین ڈالر لیکر فرار ہونا پڑا ، افغانستان سے  اشرف غنی کو فرار ہونے میں امریکہ نے مدد فراہم کی اور بعض ذرائع کے مطابق اشرف غنی کئی ملین ڈالر کے ساتھ آجکل متحدہ عرب امارات میں مقیم ہے۔