مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کے دارالحکومت کابل کے حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر امریکی فوج کی فائرنگ سے 5 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق کابل ایئر پورٹ پر تعینات امریکی فوجیوں نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیےہوائی فائرنگ کی تھی۔
ادھر قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر نے کہا ہے کہ افغان عوام کی خدمت اور ان کے جان و مال کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے۔ طالبان نے افغانستان میں قومی حکومت تشکیل دینے کی بھی تجویز پیش کی ہے۔
ملا برادر نے طالبان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ پر پہلے سے زیادہ ذمہ داری آگئی ہے۔ کیونکہ اب ہمارے امتحان اور آزمائش کا وقت آگیا ہے۔ ہمیں اس بارے میں کام کرنا ہے کہ ہم کس طرح اپنے عوام کے جان و مال، ملک کے امن و امان، اور عوام کے سکون کو یقینی بنا سکیں۔ ہم عوام کو بھی یہ یقین دلاتے ہیں کہ ہم آپ کی جان و مال کے تحفظ کے لیے حتی الوسع کوشش کریں گے اور اس کو یقینی بنائیں گے۔
ذرائع کے مطابق افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی اس وقت عمان میں موجود ہیں جہاں سے وہ امریکہ فرار ہونے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس سے قبل اطلاعات تھیں کہ افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی کابل پر طالبان کے قبضہ سے قبل افغانستان چھوڑ کرتاجیکستان پہنچ گئے ہیں۔
ادھر افغانستان کے امور میں روس کے نمائندے ضمیر کابلوف نے کہا ہے کہ طالبان کی حکومت کو باقاعدہ تسلیم کرنے میں جلد بازی سے کام نہیں لیں گے۔ اس نے کہا کہ ہم طالبان کی رفتار کو دیکھ کر فیصلہ کریں گے۔
20 سال کے بعد طالبان پہلی بار افغانستان کے مختلف محلوں میں چیکنگ پوسٹیں قائم کردی ہیں۔ طالبان نے ایک بیان جاری کیا ہے کہ گذشتہ 20 سال میں جن لوگوں نے امریکہ کے ساتھ کام کیا ہے انھیں معاف کردیں گے۔جبکہ خود طالبان بھی گذشتہ 20 سال میں امریکہ کے ساتھ رابطے میں رہے ہیں۔ افغانستان کے امور کے بین الاقوامی ماہرین افغانستان کی موجودہ صورتحال کا ذمہ دار امریکہ کو قراردے رہے ہیں۔ یورپی یونین اور برطانوی وزیر دفاع نے بھی اس سلسلے میں امریکہ پر کڑی تنقید کی ہے۔
اس سے قبل طالبان سیاسی دفتر کے ترجمان محمد نعیم نے کہا ہے کہ افغانستان میں جنگ کا اختتام ہوگیا، طالبان کو 20 سال کی جدوجہد اور قربانیوں کا پھل مل گیا ہے۔ افغانستان میں نئے نظام حکومت کی شکل جلد واضح ہوجائےگی۔
ترجمان طالبان محمد نعیم نے نیوز چینل الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ طالبان کسی کو نقصان پہنچانا نہیں چاہتے، ہر قدم ذمہ داری سے اٹھائیں گے، عالمی برادری کے تحفظات پر بات چیت کے لیے تیار ہیں۔
طالبان سیاسی دفتر کے ترجمان کا کہنا تھا کہ کسی کو بھی افغانستان کی سر زمین کسی کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی، طالبان کسی دوسرے ملک کے معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے اور چاہتے ہیں کوئی دوسرا ملک بھی ہمارے معاملات میں مداخلت نہ کرے۔ امید ہے غیرملکی قوتیں افغانستان میں اپنے ناکام تجربے نہیں دہرائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ اشرف غنی کے فرار ہونے کی امید نہ تھی، اشرف غنی کے قریبی لوگوں کو بھی ان کے فرار ہونے کی توقع نہ تھی۔ اپنے ملک اور لوگوں کی آزادی کا مقصد حاصل کرچکے، تمام افغان رہنماؤں سے بات چیت کے لیے تیار ہیں اور ان کے تحفظ کی ضمانت بھی دیتے ہیں۔
طالبان سیاسی دفتر کے ترجمان محمد نعیم کا انٹرویو میں کہنا تھا کہ کسی سفارتی ادارے یا ہیڈکوارٹر کو نشانہ نہیں بنایا گیا، ہم شہریوں اور سفارتی مشنز کو تحفظ فراہم کریں گے۔ ترجمان طالبان نے مزید کہا کہ خواتین اور اقلیتوں کے حقوق اور آزادی کا شریعت کے مطابق خیال رکھا جائے گا۔ ادھر افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ انھوں نے خونریزی سے بچنے کے لئے استعفی دیدیا اور ملک بھی چھوڑ دیا ۔