امریکہ میں نائن الیون کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کے ایک رکن نے انکشاف کیا ہے کہ تحقیقاتی کمیشن کو واضح ثبوت ملے ہیں کہ سعودی عرب کے سرکاری ملازمین نائن الیون کے دہشت گرد حملوں میں ملوث اور دہشت گرد نیٹ ورک کا اہم حصہ تھے، لہٰذا اوبامہ انتظامیہ کو چاہیے کہ فوری طور پر تحقیقاتی رپورٹ کے خفیہ رکھے گئے ان صفحات کو منظرعام پر لائے جن میں نائن الیون کے حملوں میں سعودی عرب کے کردار کو بے نقاب کیا گیا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی نے برطانوی اخبار گارڈین کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ امریکہ میں نائن الیون کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کے ایک رکن نے انکشاف کیا ہے کہ تحقیقاتی کمیشن کو واضح ثبوت ملے ہیں کہ سعودی عرب کے سرکاری ملازمین نائن الیون کے دہشت گرد حملوں میں ملوث اور دہشت گرد نیٹ ورک کا اہم حصہ تھے، لہٰذا اوبامہ انتظامیہ کو چاہیے کہ فوری طور پر تحقیقاتی رپورٹ کے خفیہ رکھے گئے ان صفحات کو منظرعام پر لائے جن میں نائن الیون کے حملوں میں سعودی عرب کے کردار کو بے نقاب کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق پہلی بار نائن الیون کی تحقیقات کرنے والوں میں سے کسی نے کھل کر سعودی عرب پر اس طرح کا الزام عائد کیا ہے۔ ان تحقیق کاروں نے 2004ءمیں اپنی حتمی رپورٹ پیش کی تھی۔ نائن الیون میں ملوث 19میں سے 15ملزمان کا تعلق سعودی عرب سے تھا۔ جان لیمن کا کہنا تھا کہ تحقیقات کے دوران نائن الیون میں کئی سعودی باشندوں کا افسوسناک کردار سامنے آیا تھا، جنہوں نے ہائی جیکرز کی مدد کی تھی۔ ان میں سے کچھ افراد سعودی حکومت سے وابستہ بھی تھے۔ سعودی عرب کے ناغن الیون میں ملوث ہونے کے بعد اسے استثنی دینا درست نہیں ہے۔

ذرائع کے مطابق سعودی عرب آج بھی ـڑے پیمانے پر رشوت ادا کرکے خود کو نائن الیون حادثے سے الگ رکھنے کی کوشش کررہا ہے۔