رواں برس ستمبر میں سعودی عرب میں حج کے دوران پیش آنے والے سانحہ منیٰ کے تقریباً 3 ماہ بعد انکشاف ہوا ہے کہ سانحے میں سعودی حکام کی جانب سے تصدیق کی گئی ہلاکتوں کے برعکس 3 گنا زائد یعنی کم از کم 2411 حجاج جاں بحق ہوئے لیکن سعودی حکام نے عمدا جاں بحق افراد کی تعداد کم بتائی اور امدادی کارروائیوں میں بھی بھر پور تعاون نہیں کیا .

مہر خبررساں ایجنسی نے امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ رواں برس ستمبر میں سعودی عرب میں حج کے دوران پیش آنے والے سانحہ منیٰ کے تقریباً 3 ماہ بعد انکشاف ہوا ہے کہ سانحے میں سعودی حکام کی جانب سے تصدیق کی گئی ہلاکتوں کے برعکس 3 گنا زائد یعنی کم از کم 2411 حجاج جاں بحق ہوئے لیکن سعودی حکام نے عمدا جاں بحق افراد کی تعداد کم بتائی اور امدادی کارروائیوں میں بھی بھر پور تعاون نہیں کیا . ان اعدادوشمار کے بعد رواں برس پیش آنے والے سانحہ منیٰ کو حج کی تاریخ کا بدترین سانحہ قرار دیا جاسکتا ہے۔

سعودی عرب کو اسلامی جمہوریہ ایران اور دیگر متاثرہ ممالک کی جانب سے سانحے کی تحقیقات میں شامل نہ کرنے پر بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا جبکہ سعودی فرمانروا شاہ سلمان کی جانب سے سانحے کی فوری تحقیقات کے حکم کے باوجود بھی بہت ہی کم معلومات کو عوام کے سامنے لایا گیا۔

واضح رہے کہ ایران کی جانب سے منیٰ حادثے کے بعد حج کے تمام انتظامات کسی آزاد باڈی کو دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا ایران نے سانحے کی ذمہ داری سعودی شاہی خاندان پر ڈالتے ہوئے کہا تھا کہ حادثہ سعودی عرب کے حکام کی بدانتظامی کی وجہ سے پیش آیا جبکہ سانحے میں جاں بحق ہونے والوں کی اصل تعداد بھی چھپائی گئی۔ امریکی ادارے اے پی کی جانب سے اکھٹے کیے گئے اعدادو شمار، سرکاری میڈیا رپورٹس اور اپنے شہریوں کو حج پر بھیجنے والے 180 ممالک میں سے 36 کے سرکاری حکام کے تبصروں پر مشتمل ہیں۔

سعودی حکام کی جانب سے حادثے کے دو دن بعد یعنی 26 ستمبر کو 769 افراد کے جاں بحق ہونے اور 934 کے زخمی ہونے کی تصدیق کی گئی تھی تاہم اس کے بعد سعودی حکام نے ہلاکتوں میں اضافے اور زخمیوں کے حوالے سے کوئی تصدیق نہیں کی، جبکہ سیکڑوں حجاج تاحال لاپتہ ہیں۔

سعودی عرب کی سرکاری پریس ایجنسی نے 19 اکتوبر کے بعد سے سانحے کی تحقیقات کے حوالے سے کچھ بھی رپورٹ نہیں کیا جبکہ 19 اکتوبر کو شائع کی گئی رپورٹ میں سعودی ولی عہد اور وزیر داخلہ محمد بن نائف کو تحقیقات میں پیش رفت کی یقین دہانی کرائی گئی۔

اے پی کے اعداد وشمار کے مطابق سانحے میں سب سے زیادہ ایرانی حجاج کرام جاں بحق ہوئے، جن کی تعداد 464 رہی۔ مالی کے 305،نائیجیریا کے 274 جبکہ مصر کے 190 حجاج کرام جاں بحق ہوئے۔ سانحے میں جاں بحق ہونے والے دیگر ممالک میں بنگلہ دیش کے 137، انڈونیشیا کے 129، ہندوستان کے 120، کیمرون کے 103، پاکستان کے 102، نائیجر کے 92، سینیگال کے 61، ایتھوپیا کے 53، آئیوری کوسٹ کے 52، بینن کے 50، الجیریا کے 46،چاڈ کے 43، موروکو کے 42، سوڈان کے 30، تنزانیہ کے 25، برکینا فاسو کے 22، کینیا کے 12، صومالیہ کے 10، کینیا کے 8، گھانا کے 7، ترکی کے 7، میانمار کے 6، لیبیا کے 6، چین کے 4، افغانستان کے 2، جیبوتی کے 2، گیمیبیا کے 2، اردن کے 2، جبکہ لبنان، ملائشیا، فلپائن اور سری لنکا کے ایک، ایک حاجی شامل ہیں۔ منیٰ حادثے سے قبل رواں سال ہی مکہ معظمہ میں کرین حادثہ بھی پیش آیا تھا جس میں 111 عازمین جاں بحق ہوگئے تھے۔ حج کی تاریخ میں دوسرا بدترین واقعہ 1990 کے دوران پیش آیا جب بھگڈر کے دوران 1429 حجاج جاں بحق ہوگئے تھے۔