مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے ڈی ایٹ سربراہی اجلاس کے دوران غزہ اور لبنان کے بارے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے موقف کی وضاحت کی۔
انہوں نے مغربی ایشیا میں جاری صورت حال پر گفتگو کرتے ہوئے غزہ میں جنگ کے خاتمے اور اس پٹی کے عوام کی مدد کے سلسلے میں 5 اہم تجاویز پیش کیں۔
غزہ اور لبنان کی صورتحال کے جائزہ اجلاس میں کی گئی ایرانی صدر کی تقریر کا متن حسب ذیل ہے۔
بسم الله الرحمن الرحیم
صدر محترم جناب عبدالفتاح السیسی
سب سے پہلے میں اس اہم اجلاس کے انعقاد پر آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔
عزیز ساتھیو؛ آج ہم ایک ایسے موقع پر جمع ہوئے ہیں کہ مغربی ایشیائی خطہ ایک حساس، پیچیدہ اور غیر مستحکم صورت حال سے دوچار ہے اور اس وقت ہم غزہ کے خلاف اسرائیلی حکومت کی جارحیت کے 14ویں مہینے کے آخری ایام سے گزر رہے ہیں، ہم فلسطینی قوم کے خلاف انسانی تاریخ کے وحشیانہ مظالم اور جرائم کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔
یہ رجیم حالیہ مہینوں میں لبنان اور شام پر بھی وحشیانہ حملے کر رہی ہے۔ گزشتہ ایک سال کی جارحیت نے نہ صرف فلسطینی عوام کی آزادی، حق خود ارادیت اور تعلیم کا حق چھین لیا ہے بلکہ ان سے جینے کا حق بھی چھین لیا ہے کہ آج وہ کھانے پینے کی اشیاء کے لئے ترس رہے ہیں۔
غزہ کی پٹی میں صیہونی حکومت کے جرائم کی شدت اس قدر سنگین ہے کہ اس نے عالمی ضمیر کو آزردہ کر دیا ہے اور تمام ممالک اور بین الاقوامی اداروں کے احتجاج کا سبب بنی ہے۔
تاہم غاصب رجیم کے ان وسیع جرائم اور جارحیت سے نمٹنے کے لیے کسی قسم کی تاخیر کی اجازت نہیں دی جائے گی اور اس سلسلے میں فوری نوعیت کے اقدامات کو باہمی ہم آہنگی کے ساتھ مشترکہ ایجنڈے میں شامل کیا جانا چاہیے۔
اس جارحیت کی روک تھام کے سلسلے میں پہلا قدم یہ ہے کہ قابض رجیم پر غزہ میں جنگ بندی اور لبنان اور شام پر حملے روکنے کے لئے دباو ڈالا جائے۔ یہ مسئلہ خطے کے ممالک خاص طور پر D8 کے ارکان کی سب سے اہم انسانی اور اخلاقی ترجیح ہونا چاہیے۔
اسی طرح غزہ اور مغربی کنارے سے صیہونی قابضوں کا فوری انخلا، غزہ تک انسانی امداد کی رسائی، پٹی کے مختلف علاقوں میں لوگوں کے لیے ان کی رہائش گاہوں پر واپسی اور تعمیر نو کے لئے ضروری انتظامات کرنے چاہیں۔
میں اس بات پر زور دینا چاہوں گا کہ اسلامی جمہوریہ ایران فلسطینی عوام اور تمام فلسطینی گروہوں کے اتفاق رائے کے لیے کسی بھی فلسطینی فلسطینی معاہدے کا خیرمقدم اور اس کی حمایت کرتا ہے۔ البتہ فلسطینی قوم کے حق خودارادیت کا احترام کیا جانا چاہیے۔
لبنان میں عام شہریوں اور بے گناہوں کے قتل عام کو روکنے کے لیے وسیع پیمانے پر کوششوں کے ساتھ آخر کار جنگ بندی کا متن تیار کیا گیا اور مزاحمتی جماعتوں نے بعض تحفظات کے باوجود اس پر رضامندی کا اظہار کیا جس کا مقصد داخلی قومی اتحاد کو مستحکم کرنا تھا، لیکن بدقسمتی سے دوسری طرف سے جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزی کی جارہی ہے۔
شام کے سلسلے میں وہاں کے عوام کے متنوع مذہبی عقائد کا احترام کیا جانا چاہیے اور اس ملک کے استحکام اور سلامتی کی ضمانت دینا چاہیے۔ ہم لوگوں کی نجی املاک کے احترام اور شام میں ایرانی حکومت کی املاک کے تحفظ کا مطالبہ کرتے ہیں اور ہم اس کے لئے دمشق پر قبضہ کرنے والے موجودہ گروہ کو ذمہ دار سمجھتے ہیں۔
آخر میں میں مسئلہ فلسطین کے بارے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی چند تجاویز پیش کرتا ہوں:
1- فلسطین کے حوالے سے ڈی ایٹ کا امدادی بندوبست قائم کرنا جس کی توجہ فلسطین کی ترقی اور تعمیر نو کی ضروریات کو پورا کرنا ہو۔
2- غزہ کے خلاف جنگ کی روک تھام اور اس پٹی تک بین الاقوامی انسانی امداد کی ترسیل کے لئے اسلامی تعاون تنظیم کے رابطہ گروپ کے ساتھ ڈی ایٹ کے رابطہ گروپ کی تشکیل۔
3- غزہ اور لبنان کی تعمیر نو اور اس کے باشندوں کی بحالی کے لیے ڈی ایٹ ممالک کے مشترکہ فنڈ کی تشکیل
4- اسرائیلی حکومت کو نسل پرست رجیم کے طور پر تسلیم کرنے کے لیے تنظیم کے اراکین کی حمایت اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد 3379 کو بحال کرنے کے لیے رکن ممالک کی مشترکہ کوششوں میں تیزی لانا۔
5- بین الاقوامی عدالت انصاف اور فوجداری عدالت میں فلسطین کو قانونی مدد فراہم کرنے اور اسرائیلی حکام کے خلاف 17 ہزار سے فلسطینی بچوں کے قاتلوں کے طور پر مقدمہ چلانے کے لیے تنظیم کے اراکین کی ایک مشترکہ قانونی کمیٹی کی تشکیل۔
آخر میں، آپ کی توجہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اس اجلاس کی کوششوں سے فلسطین کے مظلوم عوام کی مشکلات اور تکالیف کم ہوں گی۔