مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: بشار الاسد کی قانونی حکومت کے خاتمے اور مسلح دہشت گروں کو دمشق کا کنٹرول سنبھالے ہوئے 10 دن گزر جانے کے بعد بھی صیہونی فوج نے 1974 کے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شام کے اسٹریٹیجک مراکز کو نشانہ بنایا ہے۔
غاصب رجیم نے گولان کی پہاڑیوں اور کوہ حرمون کے بقیہ حصے پر قبضہ کرنے کے علاوہ شام کے ساتھ بفر زون میں پیش قدمی کرتے ہوئے صوبہ القنیطرہ کے بعض اسٹریٹجک مقامات کو ہتھیا لیا ہے۔
علاوہ ازیں اس رجیم نے شام میں 500 سے زائد اسٹریٹیجک مقامات کو نشانہ بناتے ہوئے شامی فوج کی فضائی، بحری اور دفاعی تنصیبات سمیت میزائل گوداموں کے ایک بڑے حصے کو بھی تباہ کر دیا ہے۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اسد حکومت کے خاتمے کے بعد بھی نیتن یاہو شام میں جارحیت کو کیوں جاری رکھے ہوئے ہیں؟
بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ شام میں مزاحمت کی موجودگی یا عدم موجودگی سے قطع نظر، صیہونی رجیم کو اپنی شمالی سرحدوں پر ایک "مضبوط ہمسایہ" ہرگز گوارا نہیں۔ یہ رجیم مستقبل کی شامی حکومت کی طاقت کے ذرائع کو مختلف طریقوں سے تباہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
مزاحمت کی لاجسٹکس لائن کا خاتمہ
مزاحمتی محور پچھلی دو دہائیوں کے دوران، جیوپولیٹکل رابطے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لبنان، فلسطین، شام اور عراق کی مزاحمت کو مسلح کرنے میں کامیاب رہا۔ مزاحمتی محور کو یہ امتیاز حاصل رہا کہ کسی معمولی چیلنج کے بغیر صیہونی رجیم کے خلاف متحدہ محاذ تشکیل دے سکے۔
دوسرے لفظوں میں "مختلف محاذوں کے اتحاد" کی حکمت عملی کی کامیابی کی ایک اہم وجہ مزاحمتی محور کے اطراف میں شام کا وجود تھا۔
تاہم دمشق پر تکفیری دہشت گردوں کے قبضے کے بعد لبنان کی سرحدوں کی طرف ہتھیاروں کی منتقلی کے لیے راہداری کے حوالے سے اس عرب ملک کی پالیسیوں میں تبدیلی کے ساتھ ہی صیہونی رجیم کو امید ہے کہ وہ حزب اللہ کا محاصرہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گی اور مستقبل قریب میں جنوبی لبنان میں حملوں کی دوسری لہر شروع کرے گی۔
لبنان میں حزب اللہ کے سکریٹری جنرل شیخ نعیم قاسم اور ایرانی وزیر خارجہ کی حالیہ گفتگو، مستقبل قریب میں مزاحمت کی مواصلاتی راہداری کے دوبارہ شروع ہونے کے امکان کے بارے میں غیر یقینی مستقبل کو ظاہر کرتی ہے۔ اسی مناسبت سے، حزب اللہ کے ساتھ رابطے کے راستے کو دوبارہ کھولنے کے حوالے سے پہلا منظر نامہ دمشق میں نئی حکومت کا مزاحمتی محور کے ساتھ تعاون ہے جو دوحہ میں آستانہ سہ فریقی مذاکرات کے 18 ویں دور میں پیش کیے گئے وعدوں میں سے ایک ہے۔
دوسرے منظر نامے میں، شام میں مزاحمت کے غیر فعال کور یعنی شام کے مشرق اور جنوب میں واقع کچھ ملیشیا گروپوں کے تعاون سے ہتھیاروں کی منتقلی کا عمل زیر غور ہے۔
تاہم اسرائیل کے حالیہ اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ صہیونی رجیم جنوبی شام میں پیش قدمی کرکے اس نئے مزاحمتی آپشن کو روکنا چاہتی ہے۔
مضبوط دمشق کی تشکیل کو روکنا
صیہونی حکام کے اسد حکومت کے خاتمے سے پہلے اور تکفیریوں کے اقتدار پر قبضے کے بعد کے روئے میں یکسر تبدیلی آئی ہے، جو مشرقی بحیرہ روم میں شام کی جیوپولیٹکل پوزیشن کے بارے میں تل ابیب کے توسیع پسندانہ عزائم کو ظاہر کرتی ہے۔
شام کے ہتھیار دہشت گرد گروہوں کے ہاتھوں لگنے کے بہانے ملک کی 80 فیصد فوجی طاقت کو تباہ کرنا، دمشق میں طاقتور حکومت کے قیام کو روکنے کے لیے صیہونی حکومت کی پالیسی کو ظاہر کرتا ہے۔
بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ صہیونی اپنی سرحدوں کے قریب اخوانی حکومت کے قیام کو برداشت نہیں کر سکتے۔ مصر میں محمد مرسی کی حکومت کے خاتمے کے تجربے کی بنیاد پر ایسا لگتا ہے کہ اس بار بھی صیہونی شروع میں مسلح اپوزیشن کا ساتھ دینے اور پھر سیاسی نظام کی تبدیلی یا شام کی تقسیم کے لیے ضروری پلیٹ فارم فراہم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
مندرجہ بالا نکات کو مدنظر رکھتے ہوئے دمشق میں موجودہ پیش رفت کے حوالے سے ایک قابل ذکر منظرنامے سنی قدامت پسند بلاک کے
خلاف ترکی اور قطر کی صف بندی کی گئی ہے۔
خطے کے سنی ممالک کے لیے اخوانی حکومت کا قیام کہ جس کے پاس خلیج فارس کی آمریتوں یا مصر-اردن میں آمرانہ حکومتوں سے زیادہ جمہوری طریقہ کار ہو، ایک سنگین خطرہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
اس بنا پر یہ ممکن ہے کہ اسرائیل قدامت پسند سنی ممالک کے تعاون سے دمشق میں مرکزی حکومت کے خاتمے اور ایک کٹھ پتلی حکومت کے قیام کے لیے زمین کوششیں تیز کر دے۔
شام کے حصے بخرے کرنا
صیہونی حکومت کے نئے وزیر خارجہ جدعون ساعر نے دمشق میں سیاسی اقتدار کی تبدیلی کے بعد کھل کر کہا کہ صیہونی حکومت شام کے شمال مشرق اور جنوب میں کرد اور دروز اقلیتوں کی اسلام پسند گروہوں کے خلاف حمایت کرتی ہے۔
شام کے جنوب میں صیہونی جنگی مشین کی نقل و حرکت اور ان علاقوں میں بعض مشتبہ سیاسی پروپیگنڈے اس عرب ملک کو تقسیم کرنے کے لیے تل ابیب کے منصوبے کو ظاہر کرتے ہیں۔
صیہونی سیکورٹی پلان کے مطابق السویدہ اور قنیطرہ کے صوبوں میں دروز اقلیت کو مشتعل کیا جائے اور ان دونوں صوبوں کی شام سے علیحدگی کے لیے میدان تیار کیا جائے۔
تاہم شامی کردوں کے لیے اسرائیلی حمایت کی نوعیت مختلف ہے۔ انقرہ کے ساتھ جیوپولیٹکل کشمکش میں، تل ابیب شمال مشرقی شام میں ترک فوج اور اس کے مسلح اتحادیوں کی پیش قدمی کو روکنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
دوسرے لفظوں میں، کرد گروہوں کو صہیونیوں کے فکری نظام میں ایران اور ترکی کی علاقائی تحریکوں پر قابو پانے کے ایک آلے کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔
صیہونی حکومت کی SDF کی حمایت کی حکمت عملی کا تسلسل ان گروہوں کی مکمل تباہی یا SDF کی پیش قدمی اور شمال مشرقی شام میں کردوں کی وفاقی شناخت کے قیام کے لیے ضروری بہانہ فراہم کر سکتا ہے۔
تاہم آنے والے دنوں کی پیشرفت بتائے گی کہ کس کھلاڑی کی مرضی شام کے مستقبل کو تشکیل دے گی۔
نتیجہ
شام میں صیہونی حکومت کی حالیہ سرگرمیاں اس ملک میں مستقبل کے تنازعات اور بحرانوں کے بیج بو سکتی ہیں اور خطے کے استحکام کو خطرے میں ڈال سکتی ہیں۔
شام میں ایک مضبوط مرکزی حکومت قائم کرنے میں ناکامی کا مطلب شام میں مرکز گریز سرگرمیوں کو تیز کرنا ہوگا۔
حالیہ دنوں کے دوران صہیونی میڈیا اور تجزیہ کاروں نے ایک مخصوص ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے شام میں اخوان المسلمین کی حکومت کے قیام کے خطرے کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔
ایسی صورت میں کہ حماس کے ہم فکر افراد دمشق میں ہیں، یہ ممکن ہے کہ درمیانی مدت میں شام کے نئے حکمران گولان کی پہاڑیوں اور دیگر مقبوضہ علاقوں کو واپس لینے کے بارے میں ضرور سوچیں گے۔
اس لیے اسرائیلی فوج کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ جنوبی شام میں اپنی فوجی موجودگی کو بڑھا دے اور اس عرب ملک کے تمام دفاعی ڈھانچے کو تباہ کر دے!
مندرجہ بالا واقعات انقرہ کے لیے خطرے کی گھنٹی بجاتے ہیں کہ اگر اس نے اسرائیل کے حالیہ اقدامات سے لاتعلقی کا اظہار کیا تو اس ملک کی جنوبی سرحدوں میں پہلے سے زیادہ عدم تحفظ اور دہشت گردی پھیلنے کا امکان ہے۔
ایسی صورت حال میں ہمیں انتظار کرنا ہوگا اور دیکھنا ہوگا کہ دمشق کے نئے حکمران کب تک اسرائیل کی جارحیت کے خلاف ’’بے حسی کی پالیسی‘‘ اپناتے ہیں اور شام کی ارضی سالمیت کی خلاف ورزی سے لاتعلق رہتے ہیں۔