مہر نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مشہد کی فردوسی یونیورسٹی میں علامہ اقبال بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ جس سے پاکستانی قونصل جنرل محمد شہریار نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ علامہ اقبال پاکستان اور ایران کے مشترکہ ورثے کے حامل ادیب ہیں اور انہیں شاعر مشرق اور ایک عالمی مفکر کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آج ہمارا یہاں اکٹھا ہونا اس گہرے رابطے کی یاد دلاتا ہے جو اقبال نے فارسی میں اپنے خیالات کے ذریعے ایجاد کیا، انہوں نے اپنے خیالات کے اظہار کے لئے فارسی کا انتخاب کیا اور اس زبان کو ادبی رابطے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے فارسی بولنے والوں کے افکار اور دلوں کو باہم جوڑ دیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اقبال کی نظمیں لوگوں کو بیداری کی دعوت دیتی ہیں اور انہیں اپنی دانائیوں اور فارسی سے متعارف کراتی ہیں۔
اقبال نے خودی کا نظریہ پیش کیا ہے، ان کا خیال ہے کہ جب کوئی شخص اپنے آپ کو معاشرے کے لئے وقف کرتا ہے تو پھر اسے حقیقی خودی حاصل ہوتی ہے۔ اقبال کا پیغام نہایت گہرا ہے اور وہ ہمیں اپنی تقدیر اپنے ہاتھوں میں لینے کی سفارش کرتے ہیں۔
اس موقع پر فارسی زبان و ادب کے رکن، محمد جعفر یاحقی نے کہا کہ اقبال لاہوری ایران ، اسلام اور پاکستان کے مابین نقطہ اتصال تھے، فردوسی یوینورسٹی کے شعبہ ادبیات میں اس دانشکدے کی تاسیس سے لے کر اب تک اقبال کی یاد منائی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عظیم مفکر مرحوم ڈاکٹر علی شریعتی اس یونیورسٹی کے اولین اساتذہ میں سے ایک تھے جو اقبال کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
ان کی کتاب "ہم اور اقبال" اس سلسلے میں تہران کے حسینیہ ارشاد میں ایک کانفرنس کے بعد رشتہ تحریر میں لائی گئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس دانشکدے میں فارسی ادب کے اساتذہ کی موجودگی میں اقبال شناسی کے موضوع پر تحقیقی نشستوں کا اہتمام کیا جاتا تھا اور بعض اوقات اندرون اور بیرون ملک سے ادبی شخصیات ان نشستوں میں حصہ لیتی تھیں اور پچھلے چند سالوں میں پاکستانی قونصل خانے کی حمایت سے اس دانشکدے میں شعبہ اقبال شناسی کی بنیاد ڈالی گئی ہے تاکہ اقبال شناسی کے سلسلے کو آگے بڑھایا جاسکے۔
اکادمی فارسی زبان و ادب کے اس رکن نے مزید کہا کہ اقبال لاہوری ایک فارسی گو شاعر ہیں اور اس ادبی دبستان سے تعلق رکھتے ہیں اور مولانا رومی سے بیشتر متاثر ہیں۔ اسی طرح اتحاد بین المسلمین کا تصور اقبال کے فکری دبستان کا نمایاں پہلو ہے۔