آیت اللہ رشاد نے کہا کہ روحانیت کے ساتھ تہذیب کی تخلیق کے بارے میں سوچنا ممکن ہے، اسی طرح اہل تہجد ہو کر معاشرے سے گہرا تعلق رکھنا بھی ممکن ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی - گروہ دین و تفکر : آج لبنان کی حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل حجت الاسلام و المسلمین سید حسن نصر اللہ کی شہادت کو چالیس دن ہوگئے ہیں۔ سید الشہدائے مقاومت کی سوانح اور زندگی کے بارے میں جو کچھ اب تک شائع ہوا ہے وہ ان کی سیاسی اور عسکری خصوصیات سے متعلق ہے۔ اس موقع پر ہم نے اسلامی ثقافت اور فکری تحقیقاتی ادارے کے سربراہ سربراہ آیت اللہ علی اکبر رشاد سے شہید کی زندگی کے غیر معروف پہلوؤں کے بارے میں بات کرنے کی کوشش کی۔
 
مہر نیوز: شہید سید حسن نصر اللہ کے کردار کے بارے میں آپ کی کیا جانتے ہیں؟ 

آیت اللہ رشاد: سید حسن نصر اللہ ظاہری اور باطنی دونوں لحاظ سے صحیح معنوں میں حَسَن تھے۔

وه  تخلیقی صلاحیتوں کے حامل متقی، نیک طبیعت، بہادر، مضبوط دل کے مالک اور صاحب نبوغ شخصیت تھے۔

 وہ عملی طور پر بھی باصلاحیت تھے کہ محور مزاحمت کی تین دہائیوں کی قیادت کی اور اس حد تک مقبول تھے کہ نہ صرف شیعوں اور مزاحمتی محاذ میں بلکہ مسلمانوں اور پورے خطے میں شہرت رکھتے تھے اور دنیا بھر کے آزادی پسندوں کے درمیان انہیں بے پناہ مقبولیت حاصل تھی۔ 

  وہ ایک عالم دین ہونے کے ساتھ ایک سمجھدار اور ذہین سیاست دان تصور کیے جاتے تھے جو بیس سال کی عمر سے لے کر تقریباً چالیس سال کی جدوجہد کے دوران اپنے اندر ایک نمایاں کردار بنانے میں کامیاب رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ رہبر معظم انقلاب کے الفاظ میں وہ "مجاہد کبیر" ہیں جن کا نام اور مکتب تاریخ میں باقی رہے گا۔

شہید سے آپ کی ملاقاتوں کے دوران کن موضوعات پر گفتگو ہوئی؟

 ہمارے درمیان کچھ ملاقاتیں اس وقت ہوئیں جب ہم رہبر معظم کی خدمت میں تھے اور یہ درحقیقت تین افراد کی ملاقات تھی جس میں مزاحمتی محاذ کے حالات اور حزب اللہ کی موجودہ صورتحال پر گفتگو ہوئی جس میں حزب اللہ کے بعض جوانوں کو لاحق فکری، روحانی اور ممکنہ طور پر سیاسی خطرات اور مزاحمتی محاذ کی ضرورتیں، خاص طور پر حزب اللہ کی روحانی ضروریات کے بارے میں شہید بہت حساس تھے، انہیں تحریک کے بعض اراکین کی کاہلی اور لاپروائی سے بھی گلہ تھا۔ 

آپ سید حسن نصر اللہ کی ولایت فقیہ سے متعلق شناخت اور ولایت پذیری کو کس نظر دیکھتے ہیں؟ 

ایرانی عوام اور لبنانی علماء اور شیعہ عوام کے درمیان ولایت فقیہ کے باب میں ایک گہرا تاریخی تعلق موجود رہا ہے، پوری تاریخ میں لبنانی فقہاء اور علماء کسی نہ کسی طرح سے شیعہ حکومتوں کا محور تھے، صفوی دور میں ہمارے پاس لبنانی علماء کی مضبوط اور با اثر موجودگی رہی ہے، خاص طور پر جبل عامل کے علماء جو وہاں سے ہجرت کر کے ایران آئے، جیسے شیخ بہائی اور مرحوم شیخ حر عاملی کہ جنہوں نے روایتوں کا سب سے بڑا اور سب سے درست ذخیرہ (وسائل الشیعہ ) مرتب کیا۔

 نیز دیگر ممتاز فقہا کہ جنہوں نے ولایت فقیہ کے باب میں صفوی حکومت یعنی بادشاہوں کو تصرف کرنے کی اجازت دی۔

 لہذا لبنان میں سیاسی فقہ اور قانونی فقہ کی ایک گہری اور طویل تاریخی بنیاد موجود ہے۔

لبنانی علماء اور بزرگان ہمیشہ ولایت فقیہ کی طرف متوجہ تھے اور انہوں نے ولایت فقیہ پر ایسی کتابیں لکھی ہیں جو  دوسرے خطوں میں نہیں لکھی جا سکیں۔ سید حسن نصر اللہ اس باب میں سرفہرست تھے اور وہ فکری سے لحاظ سے ولایت فقیہ پر گہرا یقین رکھتے تھے اور عملی لحاظ سے اس پر سختی سے کاربند تھے۔

اگر سید مقاومت کے روحانی پہلو کا مختلف جہتوں خصوصاً اجتماعی لحاظ سے جائزہ لینا چاہیں تو آپ کیا تجویز کریں گے؟

شہید حسن نصر اللہ روحانی اور فکری طور پر شیعہ حوزہ علمیہ کے پرودہ تھے، وہ ایک دینی شخصیت تھے جن کا شمار حوزہ علمیہ کی برجستہ شخصیتات میں ہوتا تھا اور انہیں حوزہ علمیہ کے تربیت یافتہ ایک مثالی عالم دین سمجھا جاتا تھا۔