مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، جنیوا میں ایران کے سفیر اور مستقل نمائندے علی بحرین نے اقوام متحدہ کی تخفیف اسلحہ کانفرنس کے ارکان سے خطاب میں اسرائیلی حکومت کی ایران کے خلاف جارحانہ اقدامات اور مہم جوئی کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ ایران اسرائیلی رجیم کے ہاتھوں ملک کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت اور دمشق میں سفارت خانے پر حملہ اور شہید اسماعیل ہنیہ کے قتل کو ناقابل قبول سمجھتا ہے جو تہران میں صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے اسلامی جمہوریہ ایران کے سرکاری مہمان تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایران کے متعدد فوجی اڈوں پر حملے بین الاقوامی قانون کے بنیادی اصولوں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی صریح خلاف ورزی ہے، تاہم ایران اپنے دفاع کا اپنا قانونی حق محفوظ رکھتا ہے۔
ایران کے نمائندے نے اسرائیلی حکومت کی بارہا فوجی جارحیت اور ایران کی خودمختاری اور ارضی سالمیت کی خلاف ورزیوں کے جواب میں صادق 1 اور 2 آپریشنز کا ذکر کرتے ہوئے مزید کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے اسرائیل کی جانب سے ملک کی خود مختاری اور ارضی سالمیت کی خلاف ورزیوں اور سلامتی کونسل کی خاموشی اور مذموم عدم فعالیت کا مشاہدہ کرتے ہوئے جواب میں قابض حکومت کے خلاف فوجی کارروائی کا فیصلہ کیا۔
جنیوا میں ایران کے نمائندے کے دفتر نے تخفیف اسلحہ کانفرنس کے ارکان کو لکھا کہ بدقسمتی سے علاقائی اور بین الاقوامی امن و سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے ایران کے صبر و تحمل سے صیہونی حکومت غلط فہمیوں کا شکار ہے اور اسے ایران کی کمزوری سمجھنے لگی ہے۔
لہذا ایران اپنی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے تحفظ اور اسرائیلی حکومت کو جرائم سے باز رکھنے کے لئے آپریشن وعدہ صادق 1 اور 2 کی طرح اپنے جائز دفاع کا حق رکھتا ہے۔
ایران کی جانب سے تخفیف اسلحہ سے متعلق اقوام متحدہ کی کانفرنس کے ارکان اور عالمی برادری سے درخواست کی گئی کہ وہ اسرائیلی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اس رجیم کو جرائم کے خاتمے پر مجبور کرنے کے لیے سنجیدہ اور موثر اقدامات کریں۔
جنیوا میں اقوام متحدہ کے لئے ایرانی مندوب نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ خطے میں اسرائیلی حکومت کے رویے اور جرائم جیسے نسل کشی اور جنگی جارحیت کا ارتکاب ظاہر کرتا ہے کہ اس رجیم کے ہاں جوہری اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی عالمی امن اور سلامتی کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔
اس لیے اسرائیلی حکومت کے جارحانہ اقدامات کے نتائج کو دیکھتے ہوئے بین الاقوامی برادری اور اقوام متحدہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس حکومت کے خلاف سخت موقف اختیار کریں اور اسے بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزیوں کے لیے جوابدہ ٹہرائیں۔