مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے روس کے شہر کازان میں برکس رہنماؤں کے اجلاس میں برکس اور اسلامی جمہوریہ ایران کے درمیان تعاون کی باہمی صلاحیتوں کی وضاحت کرتے ہوئے اس سلسلے میں 5 اہم تجاویز پیش کیں۔
انہوں نے کہا کہ برکس گروپ کے داخلی متنوع پروگرام ایک سیکرٹریٹ کے بغیر مشکل ہوں گے، لہذا اس سیکرٹریٹ کی تشکیل کو رکن ممالک کی وزرات خارجہ کے ترجیحی ایجنڈے میں شامل کیا جانا چاہئے۔
ایرانی صدر کے برکس سربراہی اجلاس سے خطاب کا مکمل متن حسب ذیل ہے:
بسم اللّه الرّحمن الرّحیم
جناب ولادیمیر پیوٹن، صدر جمہوریہ روسی فیڈریشن
محترم صدور اور وزرائے اعظم
چونکہ برکس اپنے تینوں ستونوں (سیاسی-سیکیورٹی، اقتصادی) میں نہایت اہم اہداف رکھتا ہے اور اس نے اپنی کارکردگی سے ثابت کیا ہے کہ وہ مستقبل میں سیاسی مساوات اور متعلقہ پیش رفت کے عمل میں نہایت خاص کردار ادا کرے گا۔
برکس اپنے کثیرالجہتی فریم ورک میں، جنوبی دنیا کے ترقی یافتہ تعاون کی ایک اہم مثال اور کامیاب ماڈل ہے، جس نے بہت سے ممالک کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔
برکس کی جانب سے عالمی ترقی کی رفتار اور مغربی ایشیائی خطے میں امن اور انسانی سلامتی کو لاحق خطرات کے سلسلے میں گزشتہ سال کے دوران، بین الاقوامی علاقائی بحرانوں کے حل کے لیے اہم اقدامات کیے گئے اور غزہ کے مسئلے پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے برکس رہنماؤں کے غیر معمولی سربراہی اجلاس کے انعقاد کے ساتھ ساتھ نائب وزرائے خارجہ کی سطح پر دیگر اجلاسوں کا انعقاد اس عرصے میں تعاون کی مثالیں ہیں جن سے اچھی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران فلسطین اور لبنان میں فوری اور مستقل جنگ بندی، مقبوضہ علاقوں سے قابض رجیم کی فوجوں کے مکمل انخلاء اور غزہ کے عوام اور لبنان کے بے گھر عوام کو فوری ریلیف فراہم کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔
عزیز ساتھیو
جنوبی دنیا عدم مساوات، ناانصافی اور معاشی مسائل سے نبرد آزما ہے۔ موجودہ اور آنے والی نسلیں برکس کی کامیابی کی شرح کو اعداد کے ساتھ اور اقتصادی اشاریوں کی ترقی سے پیمائش کریں گی۔
اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ حالیہ مہینوں میں وزرائے خزانہ، تجارت، توانائی اور مرکزی بینکوں کے سربراہان کی موجودگی میں مختلف میٹنگز اور پروگرام منعقد ہوئے ہیں، درج ذیل نکات پر مشتمل تجاویز پیش کرنا چاہوں گا:
سب سے پہلے، سیاسی، سکیورٹی اور ثقافتی معاملات سے بے توجہی برتے بغیر آئندہ سال ہمیں اپنے منصوبوں میں اقتصادی-مالی مسائل کو ترجیح دینی چاہیے اور رکن ممالک کے تمام سرکاری اور نجی اداروں سے باہمی اقتصادی اور تجارتی تعاون کے فروغ کے لئے اپنی کوششوں میں تیزی لانے کی سفارش کی جائے۔
دوسرا، سب سے اہم چیلنج جو یک قطبی ممالک نے آزاد اور آزادی پسند ممالک کے خلاف عائد کیا ہے وہ اقتصادی پابندیاں ہیں۔ برسوں پہلے پابندیوں کی زد میں آنے والے ممالک کی تعداد انگلیوں میں گنی جاسکتی تھی لیکن اب درجنوں ممالک میں لاکھوں افراد ایک غیر قانونی اور انسانی حقوق مخالف اقدام میں مختلف جہتوں سے پابندیوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔
لہذا غیر قانونی پابندیوں سے نمٹنے کے لیے گروہی کارروائی اور مشترکہ میکانزم کے نفاذ کی ضرورت ہے، خوش قسمتی سے، برکس نے کئی بار پابندیوں کے خلاف اپنی مخالفت کا اظہار کیا ہے جو کازان اعلامیہ اور دیگر دستاویزات میں واضح طور پر ظاہر ہوئی ہے، لیکن اس مقصد سے کہ مستقبل میں کسی بھی ملک میں یہ جرات پیداء نہ ہو کہ وہ دوسروں پر پابندیاں عائد کرے، ایک عملی اور موئثر اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔
تیسرا- اس وقت دنیا کے بیشتر ممالک اس بات پر راضی نہیں ہیں کہ امریکہ ڈالر کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے دوسرے ممالک کے داخلی مالی مسائل میں مداخلت کرے۔ دنیا برکس کو ڈالر کا تسلط توڑنے اور قومی کرنسیوں میں تجارت کے فروغ کے لئے کوشاں ایک فورم کے طور پر دیکھتی ہے۔
اس سلسلے میں ڈیجیٹل کرنسیوں کا آغاز اور استعمال اور نئے مالیاتی میکانزم اور ٹیکنالوجیز جیسے میسنجر کے استعمال کا پلیٹ فارم، برکس کے بنیادی مقاصد کے مطابق ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ برکس کے رکن ممالک توانائی، خوراک اور دیگر اشیا کے سب سے بڑے پروڈیوسر ہیں اور سب سے اہم نقل و حمل اور ٹرانزٹ لائنوں تک رسائی رکھتے ہیں، یہ ایک بہت بڑا فائدہ ہے جو قومی کرنسیوں کے ساتھ تبادلے کو آسان بناتا ہے۔
چوتھا: شمالی ممالک(امریکہ اور یورپ) نے ہمیشہ جنوبی ممالک کے لیے نئی ٹیکنالوجی تک رسائی میں رکاوٹیں کھڑی کی ہیں، اس لیے ہمارا فرض ہے کہ ہم معلومات کے تبادلے، مشترکہ سرمایہ کاری اور دیگر اقدامات کے ذریعے خود کو نئی ٹیکنالوجی سے آراستہ کریں۔
پانچواں: یہ ضروری ہے کہ نیو ڈیولپمنٹ بینک (این ڈی بی) کو مضبوط کیا جائے، جسے برکس سے ابھرنے والے اداروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے جو نئے اراکین کی شمولیت سے سرمائے میں اضافہ کر کے ان ممالک کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی کی جانب قدم بڑھا سکتا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران اس بینک کے ساتھ قریبی تعاون کے لیے تیار ہے۔
مذکورہ تجاویز کے حوالے سے یہ بتانا ضروری ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران مختلف شعبوں میں نمایاں صلاحیتوں کا حامل ہے اور برکس گروپ میں مشترکہ اور فائدہ مند تعاون قائم کرسکتا ہے اور اس سلسلے میں ہم تجربات کے تبادلے اور اپنی کامیابیوں کو متعارف کرانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
اس کے علاوہ اسلامی جمہوریہ ایران، اپنی اسٹریٹجک پوزیشن کے ساتھ، شمال-جنوب اور مشرقی-مغربی راہداریوں سمیت متعدد بین الاقوامی نقل و حمل کی راہداریوں کا ٹرانزٹ پلیٹ فارم بھی ہے اور ہم برکس کے فریم ورک میں توانائی یا تجارتی اشیاء کے نقل و حمل کے لیے نیا کوریڈور نیٹ ورک تیار کر سکتے ہیں۔
برکس گروپ کے داخلی متنوع پروگرام ایک سیکرٹریٹ کے بغیر مشکل ہوں گے، لہذا اس سیکرٹریٹ کی تشکیل کو رکن ممالک کی وزرات خارجہ کے ترجیحی ایجنڈے میں شامل کیا جائے۔
آخر میں، اس سربراہی اجلاس کی میزبانی اور کامیاب انعقاد کے لیے ایک بار پھر جناب ولادیمیر پیوٹن کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا اور اگلے سال کی صدارت کے لیے برازیل کو مبارکباد دیتے ہوئے امید کرتا ہوں کہ نئے دور میں ہم دوستی کے بندھن کی مضبوطی، گروپ کے اہداف اور اجتماعی فوائد کے حصول کے لیے تعاون کے ایک نئے باب کی تشکیل کا مشاہدہ کریں گے۔
آپ کی توجہ کا شکریہ