مہر خبررساں ایجنسی نے الجزیرہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان "جان کربی" نے کہا کہ ہم نہیں جانتے کہ اسرائیل کے ایران کو ممکنہ جواب سے متعلق (مبینہ) منصوبوں کے بارے میں خفیہ دستاویزات کیسے لیک ہوئیں۔"
انہوں نے کہا کہ نئی معلومات کے افشاء ہونے کا کوئی اشارہ نہیں ملا ہے، ہم پوری طرح چوکس ہیں۔ تاہم نہیں جانتے کہ یہ دستاویزات افراد کی طرف سے لیک ہوئیں یا سائبر حملے کے ذریعے افشا کی گئیں۔
جان کربی نے مزید کہا کہ سنوار کے قتل کے بعد، ہم نے اسرائیلیوں کے ساتھ ایک سفارتی حل تلاش کرنے کی اپنی خواہش کے بارے میں بات چیت کی جس سے صہیونی قیدیوں کی واپسی کا عمل ممکن ہوجائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ بندی کے حصول کے لئے سفارتی بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں، لبنان میں ہوچسٹین کی موجودگی سفارتی حل اور جنگ بندی کے لیے مذاکرات کے فریم ورک میں ہے!
ادھر لبنان میں امریکی صدر کے ایلچی آموس ہوچسٹین نے چند گھنٹے قبل لبنانی پارلیمنٹ کے اسپیکر نبیہ بیری سے ملاقات کے بعد مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہوئے لبنانی عوام کی صورتحال کو تکلیف دہ قرار دیا۔
انہوں نے لبنان کے اپنے سابقہ دوروں کی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ میں نے چند ماہ قبل لبنان اور اسرائیل کے درمیان معاملات کو حل کرنے اور تنازعات کو ختم کرنے کی ضرورت کے بارے میں خبردار کیا تھا، لیکن حالات قابو سے باہر ہو گئے۔
ہوچسٹین نے فریقین سے قرارداد 1701 پر عمل کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ لبنان کی قسمت کو دیگر تنازعات سے جوڑنا لبنانی قوم کے مفاد میں نہیں ہے اور واشنگٹن اس تنازع کو روکنا چاہتا ہے۔
واضح رہے کہ امریکہ ایک طرف غزہ اور لبنان جنگ میں نہایت بے شرمی کے ساتھ اسرائیل کے حمایت کرتا آرہا ہے اور دوسری طرف عالمی رائے عامہ کو دھوکہ دینے کے لئے مگرمچھ کے آنسو بہا کر صلح پسندی کی اداکاری کر رہا ہے، تاہم عالمی ضمیر امریکہ کی اس شرمناک جانبداری اور منافقت کو بھانپ چکا ہے۔