صہیونی تجزیہ نگاروں نے شہید یحیی سنوار کی زندگی کے آخری لمحات کی تصاویر شائع کرنے کو تل ابیب کی جانب سے ایک بہت بڑی غلطی قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ ان تصویروں نے انہیں ایک افسانوی کردار اور ہیرو میں بدل دیا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، فلسطینی شہاب نیوز نے اپنی ایک رپورٹ میں حماس کے سربراہ یحییٰ السنوار کی شہادت پر مختلف صہیونی میڈیا ہاوسز اور تجزیہ نگاروں کے ردعمل کا جائزہ لیا ہے۔

بہت سے صہیونی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ السنوار کی اپنے مجاہدین کے درمیان موجودگی اور ان کے خلاف قاتلانہ آپریشن کے دوران تل ابیب کی جانب سے اعتراف اسرائیلی رجیم کے ان سے متعلق دعووں (سرنگوں میں چھپنے اور اسرائیلی قیدیوں کو اپنے تحفظ کو برقرار رکھنے لئے اپنے پاس رکھنے) کی تردید کرتا ہے اور السنوار کی شہادت کے مناظر اسے ایک ہیرو  بنا دیں گے۔

صیہونی نیوز ایجنسی کے تجزیہ کار "اولیور لیوی" نے اس بات پر زور دیا کہ فلسطینی عوام اور لبنان کی حزب اللہ کا ماننا ہے کہ السنوار کے آخری لمحات کی تصاویر سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ آخری سانس تک لڑنے والے مجاہد کمانڈر تھے۔

السنوار کی شائع شدہ تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ زخموں سے چور ہونے کے باوجود غزہ کے جنوبی علاقے میں صیہونی افواج کے ساتھ لڑ رہے ہیں، یہ اس بات کا کھلا اشارہ ہے کہ اسرائیل حماس کے فکری حالات کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ السنوار ایک عظیم مزاحمتی شخصیت اور ہیرو بن گئے ہیں۔

ایک اور صیہونی تجزیہ نگار دان گای اویعاد لکھتے ہیں کہ حماس خود کو دوسرے ماہر جہادی افراد کے ساتھ منظم کرلے گی جو کسی طرح السنوار سے کم نہیں ہیں۔ السنوار حماس کے ایک اعلیٰ عہدیدار تھے لیکن اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان دہائیوں سے جاری طویل جنگ کے ایک کمانڈر بھی تھے۔

صیہونی حکومت کے ٹی وی چینل 13 نے بھی یحییٰ السنوار کی شہادت کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ تنظیمیں دوبارہ پروان چڑھتی ہیں اور زور پکڑتی ہیں۔ جب حزب اللہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار عماد مغنیہ کو قتل کیا گیا تو اس کے بعد حزب اللہ کا مرکزی فوجی ڈھانچہ تشکیل دیا گیا اور یہ مسئلہ اسرائیلیوں کے لیے ہمیشہ تشویش کا باعث بنا ہے۔

ایک اور صیہونی تجزیہ نگار اور صحافی بن حامیم اپنے ایکس پیج پر لکھتے ہیں کہ السنوار نے اپنی موت کے وقت بھی اسرائیل پر فتح حاصل کی۔

بہت سے اسرائیلی تجزیہ کاروں نے صہیونی میڈیا میں السنوار کی زندگی کے آخری لمحات کی تصاویر کی اشاعت پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا: میڈیا نے السنوار کے بارے میں تل ابیب کے دعووں اور سرنگوں میں اس کی موجودگی اور گھیرے میں آنے کے دعووں کو جھوٹا ثابت کر دیا۔

ان تجزیہ کاروں نے ان تصاویر کی اشاعت کو بہت بڑی غلطی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے السنوار کی موت کا اعلان کرنا کافی ہونا چاہیے تھا اور ان کی تصاویر شائع نہ کی جاتیں تاکہ ان کا مزاحمتی قد بلند نہ ہوتا۔

اسرائیل ٹی وی چینل 13 کا مزید کہنا ہے کہ السنوار حماس کے سینئر عہدیدار تھے لیکن ان کی موت سے حماس کے نظام کو کوئی نقصان نہیں پہنچا اور حماس کا ڈھانچہ غزہ کے اندر اور باہر موجود ہے اور ان کا مالیاتی نظام سخت دھچکے کے باوجود ابھی تک فعال ہے۔

مذکورہ صہیونی چینل نے مزاحمتی تحریکوں کے خاتمے کو ناممکن قرار دیتے ہوئے تاکید کی کہ اگر ہم ان کے ساتھ ہر وقت لڑیں تو بھی ہم انہیں مکمل طور پر تباہ نہیں کر سکتے کیونکہ یہ تحریکیں ٹھوس نظریات پر قائم ہیں جو انہیں طاقت فراہم کرتے ہیں۔

صیہونی کنیسٹ کے رکن امی لیوی نے بھی السنوار کی شہادت کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا: اس وقت غزہ میں ڈیڑھ ملین السنور موجود ہیں اور اسرائیل کو اپنی حکمت عملی میزائل حملے سے علاقے پر قبضے میں تبدیل کرنی چاہیے، اس کے علاوہ کسی بھی دوسرے منصوبے کا مطلب اسرائیلی رائے عامہ کو دھوکہ دینا ہے۔"