مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے بدھ کی صبح کہا کہ کل رات تہران میں سوئس سفارت خانے کے ذریعے امریکہ کو انتباہی پیغام بھیجا گیا۔
ایران نے منگل کی رات سینکڑوں میزائلوں سے مقبوضہ فلسطین پر جوابی حملہ کیا اور 90 فیصد اہداف کو نشانہ بنایا۔
یہ کارروائی اسرائیلی رجیم کے ہاتھوں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ، حزب اللہ کے رہنما سید حسن نصر اللہ اور سپاہ کے کمانڈر جنرل عباس نیلفروشان کے قتل کے ردعمل میں کی گئی۔
ایرانی وزیر خارجہ نے واضح کیا کہ صیہونی حکومت یا اس کے حامیوں کی جانب سے کسی بھی نئے اقدام کا اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے سخت جواب دیا جائے گا۔
اس سوال کے جواب میں کہ آیا ایران نے حملہ کرنے سے پہلے امریکہ کو آگاہ کیا تھا، انہوں نے کہا کہ نہیں، میں تصدیق نہیں کرتا۔
سب سے پہلے پیغامات کے تبادلے کا مطلب ہم آہنگی نہیں ہے۔ کوئی پیغامات کا تبادلہ نہیں ہوا، لیکن منطقی طور پر، حملے کے بعد، امریکیوں سمیت تمام فریقوں کو ہماری وارننگ دینا ضروری ہے اور ایسا کیا گیا ہے۔
میں نے کل رات جس تنبیہ کا ذکر کیا وہ امریکیوں تک پہنچانے کے لیے سوئس سفارت خانے کو درست اور قطعی طور پر دی گئی تھی، اور اس کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ یہ ہماری دفاعی کارروائی تھی، جو چارٹر کے آرٹیکل 51 کے مطابق کی گئی تھی، اور اپنا دفاع کرنا ہمارا حق تھا، اور یہ آپریشن ہم اس وقت تک جاری رکھنے کا ارادہ نہیں رکھتے جب تک کہ دوسرا فریق حماقت نہ کرے۔
عراقچی نے مزید کہا کہ پیغام میں ایران نے امریکا کو بھی خبردار کیا کہ وہ مداخلت نہ کرے بصورت دیگر اسے ایران کی جانب سے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔