رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دفاع مقدس کے دوران اہم کارنامے انجام دینے والوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حزب اللہ اور فلسطینی مقاومت کو صہیونی حکومت پر کامیابی مل کر رہے گی۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ہفتہ دفاع مقدس کے پانچویں دن، جہاد و مزاحمت کے میدان میں سرگرم سابق فوجیوں اور کارکنوں کے ایک گروپ نے رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات کی۔

اس ملاقات کے آغاز میں رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ نئے راستوں پر آگے نکلنا اور قدم بڑھانا قابل قدر عمل ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہماری نوجوان نسل کو آٹھ سالہ جنگ کے اسباب معلوم ہونے چاہئیں۔

آیت اللہ خامنہ ای نے تاکید کی کہ ایران کی سرحدوں پر حملے کا محرک صدام اور بعث پارٹی تک محدود نہیں تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ انقلاب اسلامی سے بڑی طاقتوں کی دشمنی کی وجہ ایک منفرد عوامی انقلاب کا ظہور اور دنیا پر حکومت کرنے کے بارے میں ایک نئی سوچ تھی۔

رہبر معظم انقلاب نے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ باطل نظام کے مقابلے میں ایک نیا تفکر تھا جو دنیا کے ظالموں سے برداشت نہ ہو سکا۔

دفاع مقدس کیوں اور اس جنگ کی رپورٹ آج کے سامعین کے لیے دو اہم موضوعات ہیں
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: آج ہمارے لیے خوش آئند ہے کہ ہم سامعین کے سامنے دفاع مقدس کے عنوان سے بنیادی طور پر دو مسائل پیش کریں: 1- ایک 8 سالہ جنگ کی وجہ اور محرکات ہیں۔ ہماری نوجوان نسل جس نے جنگ اور انقلاب کے دور کو نہیں پایا، اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اسلامی جمہوریہ آٹھ سال تک جاری رہنے والی اس جنگ میں کیوں داخل ہوا؟ آٹھ سال کم وقت نہیں ہے۔ ملک کے تمام وسائل اور سہولیات ملک کے دفاع میں لگائی جاتی ہیں۔ اس جنگ میں داخل ہونے کی وجہ کیا تھی؟
 2- دوسرا موضوع جسے آج کے سامعین کے لیے پیش نظر رکھا جانا چاہیے وہ ایک قسم کی جنگی رپورٹ اور اس جنگ کی حقیقی داستان کو بیان کرنا ہے۔ اس کی موجودہ مخاطب موجودہ اور مستقبل کی نوجوان نسل، یعنی آپ کے بچے ہیں۔ ان مسائل کے بارے میں سب کو سوچنا اور مطالعہ کرنا چاہیے۔ 
مسلط کردہ جنگ کے محرکات؛ جنگ کے آغاز میں سپر پاورز کا کردار 
رہبر معظم انقلاب نے مزید کہا کہ اس مسئلے کے بارے میں کہ جنگ کیوں مسلط کی گئی؟ یہ کیوں شروع کی گئی؟ انقلاب اسلامی کی سرحدوں پر حملہ کرنے کا محرک صرف صدام اور بعث پارٹی تک محدود نہیں تھا۔ اس وقت کے ورلڈ آرڈر کے رہنماؤں کے پاس اس جنگ کو شروع کرنے کے لیے صدام سے کہیں زیادہ محرکات تھے۔ اس دن دنیا میں دو بڑی طاقتیں تھیں اور ان میں سے ہر ایک کا خاص ہدف تھا، وہ دو طاقتیں تھیں امریکہ اور سابق سوویت یونین، حکومتیں، سیاسی نظام، تقریباً سبھی اس معاملے میں متحرک تھے کیونکہ اسلامی جمہوریہ ایران ان سب کے لئے کے لیے ناقابل برداشت عنصر تھا۔
 انہوں نے اشارہ کیا کہ لیکن اسلامی ایران ان کے لیے ناقابل برداشت کیوں تھا؟ ہم نے اس وقت تو کسی کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا تھا! آج وہ ہمیں کہتے ہیں کہ تم نے فلاں کو راکٹ دیے، فلاں کو ڈرون دیئے۔ اس وقت دشمنی کی وجہ کیا تھی جب یہ بہانے نہیں تھے۔ وجہ یہ تھی کہ دنیا کے اس حساس موڑ پر ایک انوکھا عوامی انقلاب برپا ہو گیا تھا اور اس نے دنیا پر حکومت کرنے کے لیے ایک نیا انداز فکر پیش کیا تھا۔ اس وقت دنیا پر اس باطل نظام کا غلبہ تھا البتہ یہ آج بھی موجود ہے لیکن اس وقت اس باطل اور تباہ کن نظام کے خلاف کوئی آواز اور کوئی واضح موقف نہیں تھا۔ دنیا پر استکباری تسلط حاکم تھا، تسلط پسند نظام کا کیا مطلب ہے؟ تسلط پسند نظام کا مطلب یہ ہے کہ دنیا دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے، کچھ ممالک تسلط پسند ہیں اور کچھ ممالک ان کے تسلط اور تابع ہیں، کوئی تیسری تقسیم نہیں تھی۔ اسلامی جمہوریہ، اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام اس باطل نظام کے خلاف کھلی پکار تھی۔
 انقلاب کے آغاز میں ہی سپر پاورز کے تسلط کی مخالفت ایران پر حملے کا محرک بن گئی 
آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا: اسلامی جمہوریہ اس جھوٹے تسلط پسند نظام کے مقابلے میں ایک نیا نظام تھا۔ جسے دنیا کے ظالم حکمران اور سامراجی ممالک برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ یہ نظام، یہ سوچ دنیا میں ترقی کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ انہوں نے درست سمجھا تھا کہ اسلامی انقلاب نے ترقی کی، اس فکر نے دنیا میں ترقی کی اور قوموں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ آج کچھ لوگ اپنے اندر سے اسلامی جمہوریہ پر الزام لگاتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ دنیا کے لئے بری ہے اور دنیا سے ناراض ہے۔ یہ سوچ حقیقت کے برعکس ہے، ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ اگر اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے پاس دنیا کے ساتھ سیاسی ، اقتصادی رابطہ اور بات چیت نہیں ہے، تو یہ حقیقت کے بالکل برعکس ہے۔
 انہوں نے مزید کہا کہ آج ہم ان مجموعوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں جہاں دنیا کے نصف سے زیادہ لوگ ان مجموعوں میں رہتے ہیں، ان ممالک میں۔ ہم سفر کرتے ہیں، ہم بات چیت کرتے ہیں، ہم کاروبار کرتے ہیں۔ نہیں، یہ جو کچھ لوگوں کی طرف سے دیکھا جاتا ہے جو کہتے ہیں، "جناب، ہم سب سے بھڑ چکے ہیں"، ایسا ہرگز نہیں ہے، ہم سب سے ناراض نہیں ہیں، اگر یہی مراد ہے تو یہ درست نہیں ہے۔ اگر اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نظام تسلط کے خلاف ہیں، تو ہاں، یہ درست ہے۔ انقلاب کے آغاز کی طرح آج بھی ہم تسلط پسندانہ نظام کے خلاف ہیں۔ ہم امریکی تسلط کے خلاف ہیں۔
آج سوویت یونین باقی نہیں رہا۔ لیکن امریکہ مغربی ممالک میں سرفہرست ہے۔ ہم ان کے اعمال کے نتائج دیکھتے ہیں، جو جنگیں ہوتی ہیں، جو مظالم ہوتے ہیں، جو امتیازی سلوک ہوتے ہیں، جو قومیں دباؤ میں ہیں، ہم ان کے خلاف ہیں۔ ہم کھل کر اپنی مخالفت کا اظہار کرتے ہیں۔ 
اس وقت ایران کی سرحدوں پر حملے کا محرک بن گیا۔ آج ایرانی قوم کی استقامت اور مختلف میدانوں میں طاقتور موجودگی کی بدولت اب وہ سرحدوں پر حملہ کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ دوسرے طریقے سے وہ فساد اور دشمنی میں مصروف ہیں۔
ہفتہ دفاع مقدس کے موقع پر ایران پر مسلط کردہ آٹھ سالہ جنگ کے دوران اہم کارنامے انجام دینے والوں نے رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات کی۔
ملاقات کے دوران رہبر معظم نے کہا کہ دشمن کے پاس تمام مادی وسائل موجود ہیں۔ پیسہ، اسلحہ اور عالمی میڈیا دشمن کے قبضے میں ہے۔ دوسری طرف اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے مجاہدین کے پاس دشمن کی نسبت مادی وسائل کا عشر عشیر بھی نہیں ہے۔ 
انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے اس جنگ میں کامیاب ہوں گے۔ کامیابی حزب اللہ اور فلسطینی مقاومت کے قدم چومے گی۔
رہبر معظم نے کہا کہ حزب اللہ اور مقاومت کی کامیابی کی ایک دلیل دشمن کی طرف بے گناہ لوگوں کا قتل عام ہے۔ اگر صہیونی حکومت غزہ، مغربی کنارے اور لبنان میں مقاومت کو شکست دیتی تو دشمن کو نہتے شہریوں کو شہید کرکے دنیا کے سامنے اپنا چہرہ مزید بگھاڑنے کی ضرورت نہ ہوتی۔ رہائشی مکانات، اسکولوں اور ہستپالوں پر حملہ کرکے معصوم بچوں اور بے گناہ خواتین کو قتل کرنا شکست کا واضح ثبوت ہے۔
لبنان اور فلسطین کے آج کے واقعات ہمارے دفاع مقدس کی طرح جہاد فی سبیل اللہ ہیں
 آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ آج ہمارے دفاع مقدس جیسے واقعات لبنان اور فلسطین میں ہو رہے ہیں۔ لبنان اور فلسطین میں یہ واقعات مسلط کردہ جنگ کے واقعات سے ملتے جلتے ہیں اور یہ جہاد فی سبیل اللہ ہیں۔
 انہوں نے تاکید کی کہ شریعت کا قطعی حکم یہ ہے کہ فلسطین اور مسجد اقصیٰ کو مسلمانوں اور اس کے اصل مالکان کے حوالے کرنے کی کوشش اور مدد کرنا ہر ایک پر واجب ہے۔ یہاں ایک الہی تحریک چل رہی ہے۔ فلسطین اور غزہ کے لوگ صحیح معنوں میں جہاد فی سبیل اللہ کر رہے ہیں۔ لبنان کی حزب اللہ غزہ کی خاطر لڑ رہی ہے اور ان تلخ سانحات سے دوچار ہے اور جہاد فی سبیل اللہ کر رہی ہے۔ 
موجودہ امریکی حکومت آئندہ انتخابات کے لئے یہ باور کرنے کے درپے ہے کہ اس نے صیہونی حکومت کو جنگ جیتنے میں مدد دی ہے۔
 رہبر معظم انقلاب نے فرمایا: آج لبنان اور فلسطین کے درمیان ہونے والی اس جنگ میں کافر اور شریر دشمن کے پاس سب سے زیادہ جنگی ساز و سامان موجود ہے۔ اس کے پیچھے امریکہ ہے، امریکی کہتے ہیں کہ ہم ملوث نہیں، ہمارے پاس کوئی معلومات نہیں، جب کہ اس کے برعکس وہ جھوٹ بول رہے ہیں! وہ جانتے ہیں، وہ ملوث ہیں، لیکن انہیں صیہونی حکومت کی جیت کی ضرورت ہے۔
موجودہ امریکی حکومت کو آنے والے انتخابات میں یہ ظاہر کرنے کی ضرورت ہے کہ اس نے صیہونی حکومت کی حمایت کی ہے اور وہ جنگ جیتی ہے، البتہ اسے امریکی مسلمانوں کے ووٹوں کی بھی ضرورت ہے، اس لیے وہ بہانہ کرتی ہے کہ وہ اس میں ملوث نہیں ہیں۔
 فلسطینی مزاحمت اور حزب اللہ فاتح ہیں
 آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا: دشمن پیسہ، ہتھیار، سہولیات اور عالمی پروپیگنڈے کے تمام وسائل رکھتا ہے لیکن اس جنگ کے فاتح مومنین اور مجاہدین ہیں۔ جب کہ وہ دشمن کے جنگی امکانات کے مقابلے میں اس کا دسواں حصہ بھی نہیں رکھتے۔ تاہم فلسطینی مزاحمت اور حزب اللہ فتح یاب ہے۔ آج تک یہ فتح حزب اللہ اور مزاحمتی قوتوں کی رہی ہے۔ 
 انہوں نے کہا کہ اگر غاصب صیہونی حکومت غزہ، مغربی کنارے یا لبنان میں مزاحمتی قوتوں کو شکست دینے میں کامیاب ہو جاتی تو اسے اپنا وحشی اور کریہہ چہرہ دنیا کے سامنے لانے کی ضرورت ہی نہ پڑتی کہ گھر، اسکول، ہسپتال، بچے اور خواتین کے خلاف جرائم کا وحشیانہ ارتکاب کیا۔
 حزب اللہ کے مؤثر اور قیمتی عناصر کا کھو جانا بلاشبہ ایک نقصان تھا لیکن حزب اللہ کی تنظیمی اور انسانی قوت اس سے کہیں زیادہ مستحکم ہے اور حتمی فتح انہی کی ہے۔
 رہبر معظم انقلاب نے اپنے خطاب میں واضح کیا کہ چونکہ صیہونی حکومت مزاحمتی قوت پر فتح حاصل نہیں کرسکی، اس لیے مجبوراً وہ خواتین، بچوں، نہتے لوگوں اور سڑکوں، اسکولوں اور اسپتالوں پر بمباری کرکے اپنی جیت کا تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے جب کہ وہ اب تک ناکام رہی ہے۔ جی ہاں، انہوں نے مارا. حزب اللہ کے کچھ موثر اور قابل قدر افراد شہید ہو گئے، یہ حزب اللہ کے لیے یقیناً ایک نقصان تھا۔ البتہ حزب اللہ کو تباہ نہیں کرسکتے کیونکہ حزب اللہ کی تنظیمی اور انسانی قوت اس سے کہیں زیادہ مستحکم ہے کہ ان شہادتوں سے متاثر ہو۔ بلاشبہ اس جنگ میں آخری فتح مزاحمتی محاذ اور حزب اللہ کی ہوگی۔
 ملک کے اندر دشمن کے ثقافتی اثر و رسوخ اور طرز زندگی کو نہ اپنایا جائے
 آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ میری آج کی گفتگو کا آخری نکتہ یہ ہے کہ میں کہتا ہوں کہ ہمارے سورماؤں نے، ہمارے مجاہدین نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تاکہ ہماری سرحدوں پر دشمن کا پرچم بلند نہ ہو۔ جوانوں اور مجاہدوں نے اپنے خاندانوں کو سوگوار چھوڑا تاکہ اس ملک کی سرحدوں پر دشمن کا پرچم بلند نہ ہو۔ لہذا ایرانی عوام اس بات کو قبول نہیں کر سکتے کہ ملک کے اندر وہی (دشمن کا) پرچم کچھ ایجنٹوں اور فریب خوردہ لوگوں کے ذریعے بلند کیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ پرچم، دشمن کے ثقافتی اثر و رسوخ اور طرز زندگی اور دشمنوں کے معاندانہ فتنوں کا پرچم، ہمارے مختلف اداروں میں ملک کے اندر بلند نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں خیال رکھنا چاہیے، سب کا فرض ہے۔ وزارت تعلیم و صحت میں جو نوجوانوں کی تعلیم کی جگہیں ہیں، اس حوالے سے خصوصی طور پر خیال رکھا جائے، اسی طرح ریڈیو اور ٹیلی ویژن، پریس میں خیال رکھا جائے، کیونکہ سرحدوں میں ہمارے سپہ سالاروں کے ہاتھوں دشمن کو شکست ہوئی ہے لہذا اس شکست خوردہ دشمن کو ملک کے اندر فتنے کھڑے کرنے اور مخرب سرگرمیوں کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
 ہم امید کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے تمام عہدیداروں، مرد و خواتین، مختلف محکموں کے تمام کارکنان کو دشمن کی سازشوں سے پوری طرح آگاہ اور محفوظ رکھے گا۔