پاکستانی پارلیمنٹ کے خارجہ تعلقات کمیشن کی سربراہ کا کہنا ہے کہ ملک کو ایران کے خلاف مغرب کی یکطرفہ پابندیوں پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، پاکستانی پارلیمنٹ کے خارجہ تعلقات کمیشن کی سربراہ "حنا ربانی کھر" نے اسلام آباد میں ایک ٹی وی انٹرویو میں ایران کے خلاف مغرب کی یکطرفہ پابندیوں پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد کو پابندیوں کی تعمیل کی ضرورت نہیں ہے۔

حنا ربانی نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ مغربی بلاک ڈالر کی بالادستی کو برقرار رکھنا چاہتا ہے، زور دے کر کہا کہ وہ (مغربی) ممالک کے خلاف یکطرفہ پابندیاں لگاتے ہیں اور یہ پابندیاں ایک طرح کی جارحیت ہیں۔

پاکستان کی سابق وزیر خارجہ نے مزید کہا: جو لوگ ایران کے خلاف ان پابندیوں کے پیچھے ہیں وہ سیاسی اور اقتصادی دباؤ کے ذریعے دوسرے ممالک کو یکطرفہ پابندیوں پر عمل کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔

پاکستان کی پارلیمنٹ کے خارجہ تعلقات کمیشن کی سربراہ نے واضح کیا کہ اقوام متحدہ یا دیگر کثیرالجہتی اداروں نے ایران کے خلاف پابندیاں عائد نہیں کی ہیں لیکن یہ پابندیاں یکطرفہ اور اقتصادی نوعیت کی ہیں جو کہ غربت سمیت ممالک کے مسائل کو مزید بڑھا دیتی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں سمجھتی ہوں کہ ملک (پاکستان) کو ان یکطرفہ پابندیوں کی تعمیل کرنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن بڑی طاقتیں اپنے ایجنڈے کو منوانے کے لیے سیاسی اور اقتصادی حربے استعمال کرتی ہیں۔ یکطرفہ اقتصادی پابندیاں براہ راست عوام خاص طور پر غریب لوگوں پر اثر انداز ہوتی ہیں، اس لیے میرا ماننا ہے کہ یہ اقدامات کھلی جارحیت ہیں۔

واضح رہے کہ امریکہ مختلف بہانوں سے تہران کے خلاف وسیع پیمانے پر یکطرفہ پابندیاں لگانے کے ساتھ گزشتہ چند دہائیوں سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایران کے خلاف "ویٹو پاور" استعمال کر رہا ہے اور دیگر رکن ممالک کو بھی یکطرفہ پابندیوں کی تعمیل کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔ 2015 میں ایران اور پانچ عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے معاہدے  "مشترکہ ایکشن کے جامع پروگرام/ JCPOA" پر دستخط کے بعد 16 جنوری 2016 کو تہران کے خلاف اقوام متحدہ کی پابندیاں ہٹا دی گئیں۔ تاہم، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد، وہ یکطرفہ طور پر 8 مئی 2018 کو معاہدے سے دستبردار ہو گئے اور تہران کے خلاف یکطرفہ پابندیاں دوبارہ عائد کر دیں۔ ان کے جانشین جو بائیڈن نے بھی ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی جاری رکھی ہے۔

تاہم عالمی رائے عامہ امریکہ کی اس تسلط پسندانہ پالیسی کو واشنگٹن کی کھلی منافقت سمجھتی ہے جو جمہوریت کے بنیادی چارٹر سے متصادم ہے۔