مہر خبررساں ایجنسی، دینی ڈیسک؛ آٹھ ربیع الاول حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کا دن ہے۔ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے حوالے سے حجت الاسلام ڈاکٹر ناصر رفیعی نے مہر نیوز سے خصوصی گفتگو کی۔
حجت الاسلام رفیعی نے کہا کہ امام حسن عسکری علیہ السلام 28 سال کی عمر میں شہادت کے درجے پر فائز ہوگئے۔ آپ کا شمار ان اماموں میں ہوتا ہے جن کو امامت اور رہبری کا بہت کم موقع ملا۔ آپ کی امامت کا دور چھے سال پر مشتمل تھا۔
انہوں نے کہا کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام آخری امام تھے جو لوگوں کے درمیان رہ کر لوگوں کی رہنمائی کا کام انجام دیتے تھے۔ آپ امام زمان علیہ السلام کے والد ماجد تھے جو ظالموں اور ستمگروں کے خلاف قیام کریں گے اور ظلم و ستم کی جگہ عدالت پر مبنی حکومت قائم کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ امام حسن عسکری علیہ السلام پانچ سال کی عمر میں اپنے والد گرامی کے ساتھ سامرا تشریف لائے۔ اس کے بعد مسلسل دشمن کی نگرانی اور حراست میں رہے۔ آپ کو ایک مرتبہ بھی حج کا موقع نہیں دیا گیا۔
حجت الاسلام رفیعی نے کہا کہ امام حسن عسکری علیہ السلام کے دور میں امام کے درجنوں اصحاب قم میں رہتے تھے جو مذہب تشیع کی ترویج کا کام کرتے تھے۔ آپ کے دور میں بنی عباس کے تین حاکم تھے جو کہ سب سے زیادہ کمزور حاکم ثابت ہوئے۔ آپ کے دور میں گمراہ فرقوں نے سر اٹھانا شروع کیا۔ امام عالی مقام نے ان تمام گمراہ فرقوں اور عقائد کا مقابلہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے دور میں گمراہ لوگوں نے ائمہ کرام سے منسوب ہونے کا دعوی کرتے ہوئے اپنے مذموم مقاصد کے لئے اقدامات کیے۔ عراق میں علی ابن محمد علوی نامی ایک شخص نے خود کو امام علی علیہ السلام کی ذریت میں سے ظاہر کیا اور بصرہ سے قیام کیا۔ اس نے بے گناہ افراد کا خون بہایا اور عورتوں کو کنیز بنایا۔ اس فاسد شخص نے چودہ سال عراق پر حکومت کی اور ملک کو قحطی میں مبتلا کیا۔ لوگوں کی حالت اس قدر بدتر ہوگئی کہ گلی کے کتے بلیوں کا گوشت کھانے پر مجبور ہوگئے۔ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا کہ علی بن محمد کا ہم سے کوئی تعلق نہیں؛ وہ جھوٹا ہے۔
ڈاکٹر ناصر رفیعی نے کہا کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے دور میں خشک پرہیزگار صوفیوں نے صوفی ازم کو پروان چڑھایا اور اس کی تبلیغ کی۔ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے لوگوں کو ان تقدس مآب لوگوں سے دور رہنے کی تلقین کی۔ صوفی مکتب کے پیروکار اہل بیت کو برحق نہیں سمجھتے تھے۔ امام عالی مقام کی امامت کا دور سخت ترین تھا۔ دشمنوں کی تبلیغات کا مقابلہ کرنے کے علاوہ لوگوں کو زمانہ غیبت کے لئے آمادہ کرنا بھی امام حسن عسکری علیہ السلام کا وظیفہ تھا۔ آپ کو امامت کا عظیم عہدہ ملنے کے ایک سال بعد حضرت امام مہدی علیہ السلام کی ولادت ہوئی۔ امام مہدی علیہ السلام کی ولادت کے بارے میں نہ کسی کو بتاسکتے تھے کیونکہ امام کی زندگی کو خطرہ تھا اور نہ سب سے چھپا سکتے تھے کیونکہ امام زمانؑ کی ولادت کے بارے میں شیعوں کو آگاہ کرنا ضروری تھا۔ تمام ائمہ معصومین نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کی ولادت کی خوش خبری دی تھی۔ اسی وجہ سے امام حسن عسکری علیہ السلام نے فقط اپنے مخصوص اور قابل اعتماد ساتھیوں کو اس واقعے سے آگاہ کیا۔ اپنے وکیل خاص عثمان بن سعید کو امام حسن عسکری علیہ السلام نے امام زمانؑ کی ولادت کی خوش خبری دی۔ عثمان بن سعید کہتے ہیں کہ چالیس افراد کا وفد امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تاکہ بارہویں امام کی ولادت کے بارے میں مطمئن ہوسکے۔ ہم نے امام عسکری علیہ السلام سے پوچھا تو انہوں نے ایک کمرے اندر سے چودہویں چاند کے مانند بچے کو گود میں اٹھا کر ہمارے سامنے پیش کیا اور فرمایا کہ میرے بعد میرا بیٹا محمد تمہارا امام ہوگا۔ میرے بعد اختلافات کا شکار نہ ہونا۔ آج کے بعد اس بچے کو نہیں دیکھ سکوگے۔
حجت الاسلام رفیعی نے کہا کہ احمد بن اسحاق اشعری کہتے ہیں کہ میں نے آخری مرتبہ سامرا کا سفر کیا اور امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ امام نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے جب سے زمین کو خلق کیا ہے، اس کو حجت خدا سے خالی نہیں رکھا ہے۔ اس کے بعد اپنے فرزند کو ہمارے سامنے پیش کیا اور فرمایا کہ یہ میرا بیٹا ہے جو نام اور کنیت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جیسا ہے۔ وہ دنیا کو عدالت سے بھر دے گا جس طرح ظلم و جور سے بھری ہوگی۔ میرا بیٹا خضر اور ذوالقرنین کی طرح ہے اور اس کی غیبت کا دور طویل ہوگا۔ اس زمانے میں وہ شخص سالم رہے گا جو اس کی امامت کا قائل رہے اور اس کے ظہور کے لئے دعا کرے۔ امام نے فرمایا کہ غیبت کے دوران دو صفات رکھنے والے ہلاکت سے بچ جائیں گے؛ اول سست اور ناامید نہ ہوجائیں۔ دوم امام زمان کے ظہور کی دعا کریں۔ احمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ میں پہلی مرتبہ امام عالی مقام سے اس طرح کے مطالب سن رہا تھا اور دل میں سوچ رہا تھا کہ اس بچے کی علامت کے بارے میں جان سکوں اسی لئے امام عسکریؑ سے عرض کیا کیا اس بچے کی علامت کے بارے میں جان سکتا ہوں؟ اچانک امام زمانؑ نے زبان کھولی اور فرمایا کہ میں بقیت اللہ ہوں اور دشمنوں سے انتقام لوں گا۔
انہوں نے کہا کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے ان اقدامات کی وجہ سے لوگوں کو امام زمانؑ کی ولادت کا یقین ہوگیا۔ امام عسکریؑ جانتے تھے کہ دشمن امام زمانؑ کی جان کے درپے ہیں اسی لئے صرف اپنے معتمد ترین افراد کو آپ کی ولادت سے باخبر کیا۔
حجت الاسلام رفیعی نے مزید کہا کہ امام حسن عسکریؑ کے دور میں پیدا ہونے والے منحرف فرقوں میں سے ایک مفوضہ تھا۔ اس فرقے کے ماننے والوں کا عقیدہ تھا کہ اللہ تعالی نے تمام امور انسانوں کے سپرد کیا ہے اور انسان مکمل مختار ہیں۔ اس نظریے کے مقابلے میں نظریہ جبر تھا۔ یہ دونوں نظریے افراط و تفریط کا شکار تھے۔ مفوضہ فرقے کا ایک پیروکار کامل بن ابراہیم ایک مرتبہ امام حسن عسکریؑ کی خدمت میں آیا تاکہ مفوضہ کے عقیدے کے بارے میں امام کی رائے معلوم کرے۔ کامل کہتا ہے کہ امام گھر میں موجود نہیں تھے۔ میں کمرے میں بیٹھ کر امام کا انتظار کرنے لگا۔ اس دوران کمرے کا پردہ اٹھا اور ایک چار سالہ بچہ آیا۔ اس نے مجھ سے کہا: اے کامل! واللہ وہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں۔ ان پر خدا کی لعنت ہو کیونکہ انسانوں کا دل اللہ کی مشیت کے مطابق ہے (یعنی مکمل مختار نہیں ہے) کامل کہتا ہے کہ میں بہت خوش ہوا اور تعجب بھی ہوا۔
حجت الاسلام رفیعی نے اہل بیت کے شیعہ اور محب میں فرق بیان کرتے ہوئے کہا کہ شیعہ اللہ کے دستور پر عمل کرتے ہیں۔ واجبات کو انجام دیتے ہیں اور حرام سے بچتے ہیں۔ شیعہ ہمیشہ اہل بیت کی پیروی کرتے ہیں جبکہ اہل بیت کے محب اور ان کو چاہنے والے بہت ہیں لیکن ان کے حکم پر عمل نہیں کرتے ہیں۔ اسی لئے محب اور شیعہ میں یہی فرق ہے کہ شیعہ اہل بیت کے فرامین اور دستورات پر عمل بھی کرتے ہیں۔