مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، امریکہ اور یورپی حکومتوں نے اپنے بعض علاقائی کرائے کے ساتھیوں کے ساتھ مل کر خطے کے ممالک کے عوامی انقلابات میں انحراف پیدا کرنے اور انہیں خانہ جنگی کی طرف گھسیٹنے کے لیے جو شرمناک جنگی کھیل رچایا تھا اسے آج 13 سال ہوگئے ہیں، تاہم اس وحشت ناک کھیل کا رخ شام کی طرف کیا گیا لیکن انہیں منہ کی کھانی پڑی۔ آج اس عالمی جنگ کا ایک اور تاریک حصہ سامنے آیا ہے۔
اس وقت قطر کے وزیر اعظم حماد بن جاسم نے اس خوف ناک کھیل کے پس پردہ عوامل کے بارے میں ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران سعودی اور امریکی حکومتوں کے براہ راست کردار کا انکشاف کیا ہے کہ جن کے ہاتھ لاکھوں بے گناہوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔
قطری عہدیدار کے ان بیانات سے یہ حقیقت سامنے آگئی کہ وہ جنگ جو شام کی تباہی و بربادی کا باعث بنی اور لاکھوں افراد کو ہلاک اور ہزاروں شہریوں کو بے گھر کر دیا وہ انقلاب نہیں تھا بلکہ ایک فوجی بغاوت اور سازش تھی جو شام کے خلاف امریکی چھتری تلے ایک دہشت گردانہ جنگ کا باعث بنی۔
قطر کے سابق وزیراعظم حماد بن جاسم نے اپنے ٹیلی ویژن انٹرویو میں انکشاف کیا کہ سعودی انٹیلی جنس سروس کے سابق سربراہ بندر بن سلطان جو کہ امریکہ میں سعودی عرب کے سابق سفیر بھی رہ چکے ہیں، انہوں نے شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کا منصوبہ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔
قطر کے سابق وزیر اعظم نے مزید انکشاف کیا: بندر نے چند مہینوں میں شام کی حکومت کو تبدیل کرنے کے لیے اس مشن کو انجام دینے کا منصوبہ شروع کیا، وہ اور یقیناً ہم بھی شام میں ایک انقلاب شروع کرنا چاہتے تھے جس کا نتیجہ بشار الاسد کی حکومت کی تباہی کی صورت میں نکلے۔
بن جاسم نے واضح کیا کہ بن سلطان نے اس کام کے لیے بھاری بجٹ کی درخواست کی اور مجموعی طور پر اس کے لیے مختلف ملکوں سے تقریباً 2000 ارب ڈالر جمع کیے گئے۔ انہوں نے مزید کہا: بحران کے ابتدائی چند مہینوں میں ہم اس معاملے کے ذمہ دار تھے لیکن جب بندر کام پر آئے تو وہ حالات کا انتظام سنبھالنا چاہتے تھے۔ اس طرح ہمارے اور بندر بن سلطان کے درمیان اس بات پر اختلافات پیدا ہو گئے کہ اس منصوبے کو کیسے چلایا جائے۔
حماد بن جاسم نے واضح کیا: بندر نے بہت زیادہ بجٹ کی درخواست کی اور کئی حکومتوں نے اس بجٹ میں حصہ لیا لیکن قطر نے اس وقت یہ بجٹ فراہم کرنے میں حصہ نہیں لیا۔ اس سلسلے میں ریاض میں ایک میٹنگ ہوئی جس میں قطر، سعودی عرب اور امریکہ کے وزرائے خارجہ، انٹیلی جنس اور دفاع اور اگر میں اشتباہ نہیں کر رہا تو - ترکی اور متحدہ عرب امارات - نے اس میٹنگ میں شرکت کی۔ ممکن ہے اس میں خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک بھی ہوسکتے ہیں، لیکن مجھے یقین نہیں ہے۔
قطری عہدیدار کے تہلکہ خیز انکشافات نے ایک بار پھر جمہوریت کا راگ الاپنے والے عالمی ڈکٹیٹر امریکہ اور اس کے کاسہ لیس عرب خیانت کاروں اور ترکی کے منافقانہ کردار کو طشت از بام کیا ہے۔ یہ انکشاف امریکہ کی غلامی کرنے والے عرب حکمرانوں کی حد درجہ اخلاقی پستی اور خیانت کا واضح ثبوت ہے۔