مہر خبررساں ایجنسی نے الجزیرہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ حماس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن حماس پر بے بنیاد الزام لگاتے ہوئے غزہ میں جنگ بندی معاہدے سے دستبردار ہوگئے جب کہ چند گھنٹے بعد اس ملک کے وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے حماس سے کہا کہ وہ اس امریکی تجویز سے اتفاق کرے، تاہم حماس امریکہ صدر کے ریماکس کو شرمناک قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کرتی ہے۔
حماس کے بیان میں کہا گیا: بائیڈن کے بیانات شرمناک حد تک گمراہ کن دعوے ہیں جو کسی بھی طرح حماس کے حقیقی موقف کی عکاسی نہیں کرتے، جو کہ غزہ کے خلاف جنگ روکنے پر اصرار کرتی ہے۔
جوبائیڈن کے یہ بیانات صیہونی غاصب حکومت کی امریکہ کی مکمل حمایت اور غزہ میں فلسطینی شہریوں کے خلاف جنگ اور نسل کشی کی کوششوں میں اس کے ساتھ مکمل شراکت داری کی مناسبت سے دیے گئے ہیں۔
حماس کے بیان میں کہا گیا ہے: ہم ان بیانات کو امریکا کی طرف سے صہیونی رجیم کے فلسطینی شہریوں کے خلاف مزید جرائم کے ارتکاب کے لئے ہری جھنڈی سمجھتے ہیں۔
حال ہی میں حماس کے سامنے جو تجویز پیش کی گئی ہے وہ دراصل اس پلان کا حصہ ہے جو 2 جولائی کو بائیڈن کے 31 مئی کو اعلان کردہ منصوبے اور 11 جون کو سلامتی کونسل کی قرارداد 2735 کی بنیاد پر حاصل کیا گیا تھا، جس کا مطلب دہشت گرد نیتن یاہو کی غزہ کی پٹی کے خلاف نئی شرائط اور اس کے مجرمانہ منصوبے کو مکمل طور پر قبول کرنا ہے۔
حماس نے کہا: قطری اور مصری ثالثوں نے کہا کہ حماس نے مذاکرات کے پچھلے تمام دوروں میں مثبت انداز میں اور بڑی ذمہ داری کے ساتھ کام کیا ہے جب کہ کہ نیتن یاہو نے ہمیشہ معاہدے تک پہنچنے سے روکتے ہوئے نئی شرائط اور مطالبات اٹھائے ہیں۔
ایک بار پھر، ہم نے بائیڈن پلان اور سلامتی کونسل کی قرارداد کے حوالے سے ثالثوں کے ساتھ مل کر 2 جولائی کو جن نکات پر اتفاق کیا تھا اس پر قائم رہنے کا اعلان کرتے ہیں، اور ہم ثالثی کرنے والے فریقین سے کہتے ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کریں اور قابض رجیم کو اسے قبول کرنے کا پابند بنائیں۔
آخر میں حماس نے واضح کیا: ہم امریکی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ صیہونی جنگی مجرموں کا ساتھ دینے کی پالیسی ترک کرے اور غزہ میں فلسطینی شہریوں کے خلاف فاشسٹ اور مجرم صہیونی فوج کی نسل کشی کی سیاسی اور فوجی حمایت بند کرے۔