سعودی عرب میں ایک شیعہ شہری کو بے بنیاد الزام میں پھانسی دیے جانے پر ایک یورپی ادارے اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے سعودی عدالتی نظام پر تنقید کی۔

مہر خبررساں ایجنسی نے عربی چینل21 کے حوالے سے بتایا ہے کہ انسانی حقوق کے میدان میں سرگرم یورپی سعودی تنظیم جس کا صدر دفتر برلن میں ہے نے خبر دی ہے کہ سعودی حکام نے اس ملک کے ایک شیعہ شہری کو القاعدہ کا رکن ہونے کے مضحکہ خیز الزام میں پھانسی دی ہے۔

اس ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا: اس شہری کی پھانسی نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ سعودی عرب کے عدالتی نظام پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اقدام سعودی عرب کے انسانی حقوق کے اپنے وعدوں پر عمل نہ کرنے کے بارے میں واضح پیغام دیتا ہے۔

مذکورہ ادارے نے سعودی حکام پر تنقید کہ اس شیعہ شہری کی القاعدہ تنظیم میں رکنیت سے متعلق دستاویزات میں جعلسازی کی گئی۔

سعودی وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ عبدالمجید النمر کو 2018 میں گرفتار کرکے القاعدہ دہشت گرد تنظیم سے وابستہ گروپ میں شامل ہونے کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی۔

عبدالمجید النمر کا تعلق معروف شیعہ عالم دین شیخ النمر کے خاندان سے ہے جنہیں چند سال قبل جھوٹی وجوہات کی بنا پر پھانسی دی گئی تھی۔

ساتھ ہی سعودی عرب میں اس شیعہ شہری کو پھانسی دیے جانے پر انسانی حقوق کی تنظیموں اور سوشل میڈیا صارفین میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے، کیونکہ القاعدہ جیسی دہشت گرد تنظیم میں ایک شیعہ شہری کی رکنیت انتہائی مضحکہ خیز اور بے بنیاد الزام ہے۔

سوشل میڈیا صارفین نے اس حوالے سے طنزیہ انداز میں لکھا: سعودی عرب کے شہر قطیف میں شیخ النمر کے خاندان کا ایک شیعہ، القاعدہ کا رکن بن گیا ہے! جب کہ القاعدہ شیعوں کی تکفیر کرتی ہے۔