مہر خبررساں ایجنسی نے عالمی میڈیا کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا میں ہزاروں طلبہ کی جانب سے احتجاج جاری ہے اور مسلح پولیس کے ساتھ پتھروں اور ڈنڈوں سے لیس طلبہ کا تصادم ہوا اور احتجاج کے دوران ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔
سرکاری عہدیدار نے بتایا کہ ڈھاکا میں جمعرات کو پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں ایک بس ڈرائیور سمیت 10 افراد جاں بحق ہوگئے ہیں جو اب تک ایک دن میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہیں۔
عہدیدار نے بتایا کہ بس ڈرائیور کی لاش اسپتال لائی گئی تھی، جن کو سینے پر گولی لگی تھی، جاں بحق دیگر افراد میں ایک رکشہ ڈرائیور اور 3 طلبہ بھی شامل ہیں۔
مظاہرین نے ڈھاکا میں سرکاری نشریاتی ادارہ بی ٹی وی کے ہیڈکوارٹرز میں افسران کا تعاقب کیا اور ٹی وی کی عمارت اور باہر کھڑی پارک کی ہوئیں درجنوں گاڑیوں کو آگ لگادی۔
بنگلہ دیش ٹیلی وژن نے فیس بک پر اپنے بیان میں کہا کہ کئی لوگ اندر پھنسے ہوئے ہیں اور آگ پھیل گئی ہے لیکن اسٹیشن میں موجود ایک عہدیدار نے بعد میں بتایا کہ انہیں بحفاظت عمارت سے باہر نکال دیا گیا ہے۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ پولیس کی جانب سے فائر کیے گئے آنسو گیس کے شیل اور ربڑ کی گولیاں لگنے سے درجنوں افراد زخمی ہوگئے ہیں جبکہ مظاہرین نے گاڑیاں، پولیس کی چوکیاں اور دیگر تنصیبات نذر آتش کردیا۔
پولیس نے ڈھاکا یونیورسٹی کے کیمپس کے قریب جمع مظاہرین کو منتشر کرتنے کے لیے آنسو گیس کے شیل فائر کیے اور حکام نے مظاہرین کو محدود کرنے کے لیے موبائل انٹرنیٹ سروس بھی معطل کردی تھی۔
ادھر چٹاگانگ میں بھی پولیس نے احتجاج کرنے والے طلبہ پر آنسو گیس کا استعمال کیا، جنہوں نے ہائی وے بلاک کر رکھی تھی۔
بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد کو رواں برس جنوری میں چوتھی مرتبہ وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے بعد نوجوانوں میں بے روزگاری میں اضافے کی وجہ سے شدید احتجاج کا سامنا ہے۔