مہر نیوز کے مطابق، سپاہ پاسداران انقلاب کے ایرو اسپیس ڈویژن کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل امیر علی حاجی زادہ نے ہفتے کے روز کہا کہ اسرائیلی حکام نے اپریل کے اوائل میں شام کے دارالحکومت دمشق میں ایرانی سفارت خانے کے قونصلر سیکشن پر حملہ کرکے ایک سنگین غلطی کا ارتکاب کیا۔
انہوں نے کہا: ایرانی حکام جنگ نہیں چاہتے۔ لیکن وہ بعض ریڈلائنز کراس کرنے کی سخت سزا دیتے ہیں جس پر اسرائیلیوں نے غور نہیں کیا تھا۔ انہیں ایران کے جواب کی توقع نہیں تھی"۔
جنرل حاجی زادہ نے واضح کیا کہ اسرائیلی حکام کو ایران کے تادیبی ردعمل کے بارے میں 10 اپریل کو رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی تقریر کے بعد معلوم ہوا، جب انہوں نے کہا کہ ایرانی سفارتی مشن پر حملے کی تل ابیب رجیم کو "سزا ملنی چاہیے اور سزا دی جائے گی"۔
جس پر انہوں نے اپنے دھمکی آمیز پیغامات کو ثالثوں کے ذریعے پہنچایا۔ لیکن انہیں دنوں بعد احساس ہوا کہ ایران دھمکیوں پر توجہ نہیں دے گا اور خطے میں اتحادی گروہوں کے بجائے اپنے علاقوں سے براہ راست جواب دینے پر غور کر رہا ہے"۔
سپاہ پاسداران انقلاب کے سینئر کمانڈر نے مزید کہا کہ اسرائیلی حکام نے کچھ پڑوسی ممالک میں اپنے ہم منصبوں سے رابطہ کیا اور ان سے درخواست کی کہ وہ ایرانی مسلح افواج کو اپنے ردعمل کی شدت کو کم کرنے پر راضی کریں۔
تاہم اگر رہبر معظم کی قوت ارادی نہ ہوتی تو کوئی بھی ایسا اقدام اٹھانے کی جرات نہ کرتا۔ یہ آپریشن ہمارے لیے ایک تزویراتی فتح تھی اور اس نے اسرائیل کی ذلتوں اور ناکامیوں کی طویل فہرست میں اضافہ کیا‘‘ ۔
سپاہ پاسداران انقلاب نے 13 اپریل کو اسرائیل کے زیر قبضہ علاقوں کے خلاف وسیع پیمانے پر میزائل اور ڈرون حملے کیے۔ جوابی حملے "وعدہ صادق آپریشن" نے مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی فوجی اڈوں کو بھاری نقصان پہنچایا۔
یہ جوابی کاروائی یکم اپریل کو دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر اسرائیل کے دہشت گردانہ حملے کے ردعمل میں کی گئی۔
اسرائیلی رجیم کی اس فضائی جارحیت میں دو اعلیٰ ایرانی فوجی مشیر اور ان کے پانچ ساتھی افسران شہید ہو گئے جو شام کی سرکاری دعوت پر اس ملک میں مشاورتی مشن پر تھے۔